کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ بجٹ بلوچستان عوامی پارٹی یا اتحادیوں نہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کا ہے، بجلی اور گیس بحران کے حل کے لئے پارلیمانی کمیٹی اسلام آباد جائیگی، شورش کے باعث بلوچستان کی ترقی متاثر ہورہی ہے۔
ہم سیاسی اکابرین کے ساتھ ملکر بیرون ملک اور پہاڑوں پر جانے والے سے بات چیت کریں گے، امن و امان پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے وفاق سے درخواست کریں گے کہ اس مد میں ہماری مدد کریں، اپوزیشن اور اتحادیوں کے ساتھ خوش اصلوبی سے معاملات کو آگے بڑھایا ہے آئند بھی بڑھائیں گے ۔یہ بات انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں آئندہ مالی سال 2022-23کا بجٹ منظور ہونے کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی ،وزیراعلیٰ میر عبدالقدو س بزنجو نے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ ایسا بجٹ بنائیں جو عوامی ہو اور عوام کو ریلیف فراہم کر کے حکومت نے پینشنرز اور ملازمین کا بجٹ میں خصوصی خیال رکھا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں اقتدار سنبھالے صرف چھ ماہ ہوئے ہیں اور گزشتہ بجٹ جو پہلے سے منظور کیا جاچکا تھا۔
اس کے بھی چھ ما ہ گز ر چکے تھے ہماری کوشش رہی کہ جتنا ممکن ہو سکے پچھلے بجٹ میں عوام کو ریلیف فراہم کریں انہوں نے کہا کہ گزشتہ بجٹ میں اپوزیشن اراکین سڑکوں پر سراپا احتجاج تھے بجٹ کے روزجو کچھ ہوا وہ تاریخ کا بد ترین دن تھا نئے بجٹ میں تمام ساتھیوں کی رائے اور مشورے شامل کئے گئے ہیںجن کمی بیشیوں کی نشاندہی ہوئی ان پر وزیر خزانہ نے تفصیلی بات کی ہے اب بھی جو کمی بیشی ہوگی ہم اس پر نظر رکھیں گے انہوں نے کہا کہ بجٹ بلوچستان عوامی پارٹی یا اتحادیوں نہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کا ہے گزشتہ ادوار میں جب بجٹ پیش ہوتا تھا وہ اسمبلی کے باہر سڑکوں پر لوگ سراپا احتجاج ہوتے تھے امسال تاریخ میں پہلی بار کوئی احتجاج نہیں ہا نہ کوئی سڑکوں پر تھا انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ میں کابینہ اور اسمبلی کے اراکین نے عوامی مسائل حل کر نے کے لئے دن رات ایک کئے ہیں کسی بھی قسم کا احتجاج نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے عوام کو ریلیف فراہم کیا ہے حکومت کی پالیسی ہے۔
کہ جو بھی اپنی بات رکھنا چاہے ہم اسے سنیں گے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ریکوڈک بلوچستا ن کا اہم مسئلہ تھا یہ سیاسی طور پر مصیبت قرار دیا جاتا تھا حکومت کی تبدیلی کے بعد حلف لیتے ہی معلوم ہوا کہ ریکوڈک معاہدے پر اجلاس ہے اسلام آباد میں بتایا گیا کہ سب طے ہوچکا ہے یہ میرے لئے مشکل مرحلہ تھا لیکن ہم نے جو بھی مطالبات رکھے وہ تسلیم کئے گئے صوبے کو بغیر سرمایہ کاری کے براہ راست 25فیصد حصہ، 5فیصد رائلٹی اور سی ایس آر، بی آر اے ، لیبر ٹیکسز کی مد میں کم و بیش 40فیصد حصہ ملے گا جو کہ کسی بھی ملک کی تاریخ میں معدنیات کے حوالے سے معاہدے میں سب سے بڑا حصہ ہے یہ معاہدہ بلوچستان کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس سے صوبے کو ریونیو حاصل ہوگا انہوں نے کہا کہ 6ماہ کی قلیل مدت میں احتجا ج کرنے والوں کو سننا اور انکے مسائل حل کرنا بڑامسئلہ تھا حکومت کے لئے بجٹ بنانا بھی چیلنج تھا کیونکہ کہا جاتا تھا کہ پوسٹیں اور اسکیمات بیچی جارہی ہیں پہلی بار ایسا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پی ایس ڈی پی میں اسکیمات پیسے دے کر شامل کی گئیں جس پر محکمہ منصوبہ بندی و ترقیاتی ، محکمہ خزانہ کے سیکرٹریز اور ملازمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں انہوں نے کہا کہ گزشتہ 12سالوں سے نیا این ایف سی ایوارڈنہیں ہوا جسکی وجہ سے صوبے کوہر سال 20ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے انہوں نے کہا کہ صوبے کے پاس وسائل نہیں ہیں ہم سردار اختر جان مینگل، محمود خان اچکزئی ،مولانا فضل الرحمن سمیت حکومت کے اتحادیوں سے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء کو یقینی بنانے کے لئے رابطہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کے مسائل بڑھ رہے ہیں تنخواہیں نکال کر ترقیاتی مد میں صرف 50سے 60ارب روپے بچتے ہیں اس رقم سے نئی تعمیرات دور کی با ت ہے پہلے سے بنی ہوئی عمارتوں اور سڑکوں کی مرمت بھی ممکن نہیں ہے انہوں نے کہا کہ صوبہ امن و امان پر خطیر رقم خرچ کر رہا ہے بلوچستان میں امن نہیں ہوگا تو دیگر صوبے بھی اس سے متاثر ہونگے ہم وفاقی حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ صوبے کے امن و امان کے اخراجات میں مدد کرے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو مذہبی اور قوم پرستانہ دہشتگردی کا سامنا ہے ہر 20سال بعد شورش اس لئے آتی ہے کیونکہ ہم عوام کو انکے بنیادی حقوق نہیں دے پاتے جتنے بھی لوگ ان سب نے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی کہ کام کریں اس وقت جس قدر چیلنجز کا سامنا ہے بلوچستا ن کی حالت آئندہ 200بعد اس سے بھی ابتر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ پہاڑوں پر ہیں ان سے مذاکرات کریں گے دونوں جانب سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہونے چاہیئیں پہاڑ پر جانے والوں نے جو قدم اٹھایا اس سے براہ راست اور بلاواستہ عوام متاثر ہور ہے ہیں بلوچستان بیلٹ میں ترقی کی نسبت امن و امان پر زیادہ اخراجات ہور ہے ہیں جس کی وجہ سے عوام کی ضروریات پوری کرنے میں مسائل درپیش ہیں کام سست روی کا شکار ہوتے ہیں اور اخراجات بڑھ رہے ہیں ہم تمام جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کر کے پہاڑوں پر جانے والوں کو واپس لانے کے لئے بات کریں گے اور بیرون ملک بیٹھے لوگوں کو قائل کریں گے کہ وہ بلوچستان میں بیٹھ کر اپنے مسائل اجاگر کریں نہ کے بندوق اٹھا کر عوام کو تکلیف میں ڈالیں انہوں نے کہا کہ شورش سے عوام پریشان حال ہیں باہر بیٹھے لوگوں کے پاس بھی جائیں گے۔
اور ان سے بات کریں گے تاکہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہوا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ نوکریاں دینے سے حکومت پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں مستقبل میں تنخواہیں دینا بھی مشکل ہوگا مگر اسکے باوجود بجٹ میں 2ہزار نئی آسامیاں رکھی گئی ہیں جبکہ پرانی آسامیوں پر بھرتی کا عمل بھی جاری ہے انہوں نے کہا کہ سی اینڈ ڈبلیو کے 361ملازمین کو بحال کر رہے ہیں جن افسران نے بد عنوانی کی ان کے خلاف کاروائی ہوگی حکومت نے ہمیشہ کمزور لوگوں کا دفاع کیا ہے اور کابینہ نے بھی اس عمل کی حمایت کی ہے بی ڈی اے کے 388ملازمین کو مستقل کر دیا ہے گلوبل ٹیچرز کا مسئلہ بھی حل کردیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ بجلی اور گیس کے بحران کے مسائل سنگین ہیں بجلی کامسئلہ حل کر نے کے لئے اسمبلی اراکین پر مشتمل کمیٹی بنائیں گے جو اسلام آبا د جا کر وزیراعظم اور متعلقہ وزیر سے ملاقات کریگی اور ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریگی انہوں نے کہا کہ معاشرے میں عوام کو ریلیف نہ دینا اور انکی داد رسی نہ کرنا حکومت کے لئے اچھی روش نہیں ہے صوبے میں ہر 20کلومیٹر پر چیک پوسٹیں قائم تھیں جن پر روک کر عوام کی عرت نفس کو مجروح کیا جاتا تھا۔
حکومت سنبھالتے ہی ہی غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ کیا امن و امان کا مسئلہ ضرور ہے مگر ہم عزت نفس کو مجروح اور پیسے بٹورنے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے انہوں نے کہا کہ ہم کسی مافیاء کو نہیں بلکہ چھوٹا کاروبار کر نے والوں کو سہولت دینا چاہتے ہیں کسٹم وفاقی ادارہ ہے اسکی دیگر صوبوں میں اتنی چیک پوسٹیں نہیں ہیں جتنی بلوچستان میں ہیں وزیراعظم اور وفاقی وزیر سے درخواست کی ہے کہ وہ اس حوالے سے نظر ثانی کریں وزیراعلیٰ نے مزید کہا تمام اپوزیشن جماعتوں بی این پی ،جمعیت علماء اسلام، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی اور حکومتی اتحادی جماعتوں کا شکرگزار ہوں کہ انہوںنے اب تک خوش اصلوبی سے معاملات کو آگے بڑھایا ہے دعا ہے کہ سب ایسے ہی آن بورڈ رہیں اور عوام کے مسائل حل کریں انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کے حلقوں میں اہم عوامی نوعیت کے منصوبے شامل کئے جانے چاہیئں اپوزیشن کو ساتھ لیکر بہتر حکومت کر سکتے ہیں اس موقع پر انہوں نے دپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کو بھی اجلاس صبر و تحمل سے چلانے پر سراہا۔