ہندوستان کے مشہور ایکٹر نصیرالدین شاہ اپنے ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ وہ ایک مرتبہ کسی دوسرے ملک کے ساحل سمندر پر چہل قدمی کررہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ سمندری لہریں جن چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو ساحل پر پھینک کے جارہے ہیں تو وہاں کھڑا ایک شخص ان چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو دوبارہ ایک ایک کر کے سمندر میں پھینک رہا ہے مجھے بڑی حیرت ہوئی میں اس کے نزدیک گیا اور اس سے ایسا کرنے کی وجہ دریافت کی کہ تم یہ کیا کررہے ہو؟ اس شخص نے میری طرف دیکھے بغیر اپنے کام کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دیکھ نہیں رہے ہو ان مچھلیوں کی زندگیاں بچا رہا ہوں۔
میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہاں تو ہر لہر کے ساتھ ہزاروں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں کنارے پر آرہی ہیں تم ان میں سے کتنوں کی جان بچا سکو گے؟ تو انہوں نے ایک چھوٹی سی مچھلی کو ساحل سے اٹھایا، میری طرف دیکھا اور اس کو سمندر میں پھینکتے ہوئے کہا اگر ہزاروں کی زندگیاں بچ نہیں سکتی ہیں تو نہ سہی لیکن اس ایک کی زندگی تو بچ گئی نہ۔ نصیرالدین شاہ کہتے ہیں کہ اس کے اس بات نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ دوسرے دن میں بھی سمندر کے کنارے پڑے ہوئے مچھلیوں کو سمندر میں پھینکنے کے عمل میں اس کے ساتھ شریک ہوگیا۔
یہ چھوٹی سی کہانی ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ شکوہ ظلمت شب کی بجائے ہمیں اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق اپنے معاشرے یا ارد گرد کی بہتری اور ترقی کے لئے اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرکے اپنے حصے کی شمع روشن کرنا چائیے۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ارد گرد میں رہنے والے اکثریتی لوگوں کا خیال یہی ہے کہ جہاں معاشرے میں ہر طرف برائیاں،فساد،جہالت،گمراہی، ناانصافی اور دیگر سماجی برائیاں پوری طرح عام ہیں تو وہاں ان کی ایک چھوٹی سی اچھائی،ایک چھوٹے سے مثبت کام اور ایک چھوٹے سے جدوجہد سے بھلا کیا فرق پڑے گا؟اور اسی سوچ کی وجہ سے جہاں بہت سے لوگ چھوٹی چھوٹی مثبت سرگرمیوں، کاوشوں اور جدوجہد میں ہاتھ ڈالنے سے گریز کررہے ہیں تو دوسری طرف پہلے سے میدان عمل میں موجود لوگ بھی مسلسل حوصلہ شکنیوں کی وجہ سے عملی جدوجہد سے دلبرداشتہ ہوکر آہستہ آہستہ تعمیری اور مثبت کاموں سے دستبردار ہوتے جارہے ہیں۔ جو پہلے سے تاریک معاشرے کو مزید اندھیروں میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
اگر آپ معاشرے کی اصلاح اور بہتری کے لئے کوئی بھی چھوٹی سی سرگرمی کررہے ہیں تو آپ یقین رکھیں کہ آپ کی وہ چھوٹی سی کوشش اس گھٹن زدہ اور تاریک معاشرے میں روشنی کا ایک نور ہے۔ وہ ایک ایسی شمع ہے جو آنے والوں کو تاریکی میں بھٹکنے سے روکتی رہے گی اس لیے اپنی اس سرگرمی اور کوشش کو چھوٹا مت خیال کریں اور معاشرے اور لوگوں کی باتوں سے دل برداشتہ نہ ہو بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق جتنا مثبت کام کرسکتے ہیں اتنا ضرور کیجئے۔
اگر ہم لوگ یہ سمجھ لیں کہ ایک انسان کی طاقت کیا ہوتی ہے یا ایک انسان کیا کیا کارنامے سرانجام دے سکتا ہے تو پھر ہمیں ہمارے وہ تمام کام چھوٹے نہیں لگیںگے جن کو ہم ابھی چھوٹا سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
آپ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لیکر آج کے دور جدید تک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ دنیا میں ہر بڑے انقلاب،ہر اچھائی،ہر تعمیری اور مثبت کام کی ابتداء ہمیشہ چھوٹے پیمانے پر ایک انسان یا چند انسانوں سے ہی شروع ہوا ہے۔اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی کاوشوں،محنت اور جہد مسلسل سے ان کے نظریات دوسروں کو منتقل ہوتے رہے ہیں۔کسی بھی بڑے منصوبے یا کام کی ابتدا ہمیشہ ایسے ہی ہوتا ہے۔
پہلے پہل یہ عظیم منصوبے اور خیالات کسی ایک ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہی خیالات نظریہ بن کر دوسرے لوگوں کو منتقل ہوتے رہتے ہیں آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو جتنے بڑے لیڈرز ملیں گے ابتداء میں وہ اپنی سوچ اور مقصد میں اکیلے تھے اور جب انہوں نے اپنے نئے سوچ کے ساتھ کام شروع کیا تو شروع شروع میں انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعد میں جب ان کی سوچ پھیلنا شروع ہوگئی تو پھر وہی ایک انسان کی سوچ لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کے سوچ میں تبدیل ہوگئی۔
آپ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح سے لیکر شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال تک، ملائیشیا کے عظیم رہنما مہاتیر محمد سے لے کر امریکا کے مدبر صدر ابراہم لنکن تک، سیاہ فاموں کی آزادی کے لئے 27 سال تک قید رہنے والے عظیم نیلسن منڈیلا سے لے کر چین کے عظیم انقلابی لیڈر ماؤزے تنگ تک،کشش ثقل کے موجد نیوٹن سے لیکر نظریہ اضافیت کے بانی آئن اسٹائن تک،کروڑوں لوگوں کو اپنے فکر و فلسفے سے متاثر کرنے والے کارل مارکس سے لیکر انگریزی ادب کے بے تاج بادشاہ شیکسپیئر تک،طب کے شہنشاہ حکیم ابن سینا سے لیکر فلسفے کے ماہر ابو نصر فارابی تک،دنیا میں علم کی شمع کو روشن کرنے والے سقراط سے لیکر اس کے عظیم شاگرد افلاطون تک،معلم اول ارسطو سے لیکر قدیم فلسفی دیو جانس کلبی تک،نظریہ ارتقاء کے بانی ڈارون سے لیکر عظیم معذور،
سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ تک،کاروبار کی دنیا کے بڑے ناموں میں سے ایک اینڈریو گروو سے لیکر ہوٹلز کے بزنس کے ہیرو کمیون ولسن تک،بنگلہ دیش کے گرامین بینک کے بانی ڈاکٹر یونس سے لیکر پاکستان کے اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب تک، مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس سے لے کر ایمازون کے چیف جیف بزوس تک،ہندوستان کے مسلمانوں کو جدید علوم کا شعور بخشنے والے سرسید احمد خان سے لیکر پاکستان اور پوری دنیا میں انسانیت کی خدمت کا اعزاز حاصل کرنے والے خادم انسانیت عبدالستار ایدھی تک،دنیا کے عظیم اطباء میں سے ایک حکیم جالینوس سے لیکر دنیا کے پہلے انجینئر ارشمیدس تک اگر آپ کسی بھی شعبے، پیشے یا میدان کے بڑے ناموں کی فہرست نکال کر دیکھ لیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اپنے اپنے شعبوں کے یہ کامیاب لوگ بھی جب اپنی منزل کی طرف پہلی مرتبہ نکلے تھے تو یہ لوگ بھی تنہا تھے یا گنتی کے چند لوگ ان کے حواری تھے۔ لیکن انہوں نے مسلسل محنت،جہد مسلسل اور پیہم جدوجہد سے اپنے نظریات کو فروغ دیا۔(جاری)