|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2022

وہ ایک نوجوان تھا لیکن اس کی رگوں میں خون بجلی کی طرح دوڑتا تھا۔ اس نے اسلامی فتوحات کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ جس شہر کو نامور سپہ سالاروں نے فتح کرنے کی بے شمار تگ و دو کی، لیکن شہر کو فتح کرکے اس کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مسلمان سات سو سالوں سے اس شہر کو فتح کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔

بازنطینی عیسائی اس شہر کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے۔ لیکن اس نوجوان نے اس تاریخی اور ناقابل تسخیر شہر کو حیرت انگیز طور پر فتح کرکے تاریخ بدل دی۔ یہ تھا 21 سالہ فاتح قسطنطنیہ، سلطان محمد فاتح جس نے 1453 ء میں قسطنطنیہ کا عظیم شہر فتح کرلیا۔اس شہر کو فتح کرنے والے امیر اور لشکر کے متعلق حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔
“قسطنطنیہ جس شخص کے ہاتھ پر فتح ہوگا وہ امیر بہترین امیر ہو گا، اور وہ لشکر بہترین لشکر ہوگا۔
سراندیپ موجودہ سری لنکا سے مسلمانوں کا بحری جہاز نکلا،اور دیبل کے مقام پر اسے راجہ دائر کے لٹیروں نے لوٹ لیا۔ مردوں ، بچوں اور عورتوں کو یرغمال بنالیا گیا اور انکے مال و دولت پر قبضہ کرلیا گیا۔جب ان مظلوم بچوں اور عورتوں کی دردناک فریادیں دمشق اور عراق کے ایوانوں تک پہنچیں، تو وہاں کے ایوان لرز اٹھے۔ ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے ایک لشکر کا انتخاب ہوا۔ جس میں بڑے بڑے ماہر تیغ زن ،کہنہ مشق تیر انداز اور نیزہ باز شامل تھے۔

سب کے سب ایک سے بڑھ کر ایک جنگجو اور دلیر۔ میدان جنگ کو تو وہ کھیل تماشا سمجھتے تھے۔ لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ لشکر کا سپہ سالار ایک 17 سالہ نوجوان تھا۔ تاریخ اسے محمد بن قاسم کے نام سے جانتی ہے۔ اور تاریخ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس 17 سالہ نوجوان نے راجہ داہر کے کئی گنا بڑی فوج کو دھول چٹا دیا تھا۔اور سندھ کو باب الاسلام بنا دیا تھا۔
سکندر اعظم 22 سال کی عمر میں مقدونیہ کا بادشاہ بنا اور پھر تسخیر عالم کے جذبے کو لے کر دنیا کے کئی ممالک کو اپنے پائوں تلے روندتے ہوئے ہندوستان پہنچا اور دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس کو شکست دے دی۔ سکندر اعظم نے دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا۔ وہ کئی ممالک کو فتح کرنے کے بعد صرف 32 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔
اور اس سلسلے میں سب سے اہم سبق معلم انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری وقت یعنی 11 ہجری میں رومیوں کے خلاف مجاہدین اسلام کا جہاد کے لئے ایک لشکر تیار فرمایا۔ ان مجاہدین میں مشہور و معروف صحابہ کرام بھی شامل تھے۔ لیکن سپہ سالاری کے لئے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا۔ جن کی عمر اس وقت مورخین کے مطابق 20 سال سے بھی کم تھی۔
15 سال سے لیکر 40 سال کی عمر کو عموماً نوجوانی کی عمر سمجھا جاتا ہے۔تاریخ کا مطالعہ کرنے اور اس پر غور و فکر کرنے سے انسان کو یہ حقیقت معلوم ہوجاتا ہے کہ کرہ ارض پر ایسے بے شمار باہمت نوجوانوں کے کارنامے موجود ہیں جنہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی 15 سالوں سے لیکر 40 سالوں تک بے شمار کامیابیاں سمیٹیں۔ عمر کا یہ حصہ انسان کی زندگی میں نہایت اہم ہوتا ہے۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان پہاڑوں سے ٹھکرانے،طوفانوں،سمندروں اور ہواؤں کا رخ موڑنے اور خطرناک سے خطرناک ترین کام کرنے کی استعداد اور صلاحیت رکھتی ہے ۔اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے 40 بہاروں تک کوئی نمایاں کارنامہ سرانجام نہیں دیتا ہے تو پھر اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ شخص اپنے اہداف کو حاصل نہیں کرسکے گا کیونکہ یہی وہ عمر کا حصہ ہے جس میں انسان کی امنگیں اور خواہشیں بھرپور جوان ہوتی ہیں اور عمر کے اسی حصے میں اس کے جسمانی اعضاء بھی پوری تندہی کے ساتھ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔
امریکی قانون کی مشہور کتاب ” امریکی قانون پر تبصرہ ” کے مصنف اور امریکی تاریخ کے مقبول ترین جج ” آلیور وینڈل ہومز” کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کو اپنے عمر کے چالیس سال تک اپنا مقام حاصل کرلینا چائیے۔ اگر وہ اس عرصے تک اپنا مقام و مرتبہ حاصل نہیں کرلیتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ پوری زندگی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا ہے۔انہوں نے خود اپنی زندگی کے چالیس سال پورے ہونے سے صرف پانچ دن پہلے اپنے ہدف کو حاصل کرلیا تھا۔
یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام بڑے آدمیوں نے اپنے عمر کے ابتدائی چالیس سالوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ اور اگر کچھ کامیاب لوگ اپنے ابتدائی 40 سالوں میں کامیاب نہیں بھی ہوسکے تو انہوں نے اس وقت تک اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے آدھا راستہ طے کیا ہوتا ہے۔
فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کو جب مصر کا حاکم مقرر کیا گیا تو اس وقت ان کی عمر کم و بیش 30 سال تھی۔
مشہور سائنسدان اور نظریہ اضافیت کے بانی آئن اسٹائن نے اپنی پہلی سائنسی کتاب جب شائع کی تو اس کی عمر محض 26 سال تھی۔
فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی 28 سال کی عمر میں سلطنت غزنی کا حکمران بنا تھا۔
شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو شہید نے 32 سال کی عمر میں سلطنت خداداد میسور کی حکومت سنبھالا تھا۔
(جاری ہے)