بلوچستان میں بارش اور سیلاب کی تباہ کاری نے پوری نظام زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔صوبے کے شاید کم ہی اضلاع ایسے ہوں جو اس تباہ کاری سے محفوظ رہے ہوں ہر قصبہ ایک درد ناک داستان بیان کررہا ہے بے یارومددگار بے سروسامانی میں بیٹھے متاثرین امداد کے منتظر ہیں کہ انہیں کب اس بڑی آفت اور مصیبت سے نکالاجائے گا روز رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ مزید لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے ہیں وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں بزرگ، بچے خواتین سمیت ہر کوئی متاثر ہورہا ہے ایک طرف تو ان کا سب کچھ اس آفت نے چھین لیا ہے انتہائی کرب میں زندگی گزارہے ہیں کوئی پرسان حال تک نہیں ہے گوکہ حکومت اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کام کررہی ہے مگر جن ہنگامی اقدامات اور مالی ریلیف کی ضرورت ہے اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کے بس میں نہیں کیونکہ بہت بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں نصف حصہ ملک کا ہے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کس طرح سے داد رسی ہوسکتی ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ رسائی میں بھی دشواریاں ہیں اس لیے باربار اس بات پر زور دیاجارہا ہے کہ عالمی ڈونرکانفرنس بلائی جائے تاکہ بڑے پیمانے پر مالی امداد جمع کی جاسکے اور بلوچستان میں ہونے والی تباہ کاریوں پر بحالی کا کام شروع کیاجاسکے۔
اب تک کی معلومات کے مطابق صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے دور افتادہ پہاڑی علاقے پر واقع بستی مارپال کے شہری ایک ہفتے سے محصور ہیں یہاں کے راستے اب تک بحال نہیں ہو سکے ہیں۔متاثرین کی جانب سے حکومت اور مقامی انتظامیہ سے کھانے کی اشیاء، پینے کے لیے پانی کی فراہمی اور راستے کھولنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بارشوں اور سیلابی صورتحال سیرپورٹ کے مطابق صوبے میں کل 15 ہزار 337 مکانات کو نقصان پہنچنے کی تصدیق ہوئی ہے جن میں سے 3 ہزار 872 مکانات مکمل تباہ ہو گئے ہیں جبکہ 11 ہزار 465 مکانات کو جزوی طور پر نقصان ہوا ہے۔ مختلف مقامات پر 16 پل ٹوٹ چکے ہیں جبکہ 670 کلو میٹر سڑکیں متاثر ہوئی ہیں۔، 23 ہزار سے زائد مال مویشی ہلاک ہوئے اور 2 لاکھ ایکڑ زمین پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا۔دوسری جانب بلوچستان میں سیلاب اور بارشوں کے باعث مزید 2 اموات کی تصدیق کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 166ہوگئی۔
نوشکی میں 1 بچے اور کیچ کے علاقے میں ایک شخص کی سیلاب اور بارشوں کے باعث موت کی تصدیق ہونے کے بعد اب تک ہونے والی اموات کی تعداد 166 ہو گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 75 ہو گئی ہے۔یہ اعداد وشمار اب تک سامنے آرہے ہیں جو حتمی نہیں ہیں جہاں جہاں تک رسائی ہورہی ہے وہاں سے نقصانات کی معلومات مل رہی ہے جہاں رسائی نہیں ہوپارہی وہاں کی صورتحال سے ابھی تک کوئی باخبر نہیں ہے لہٰذا اس وقت پوری صوبائی اور وفاقی حکومت اپنی مشینری سرکاری وسائل بروئے کار لاتے ہوئے غریب عوام کے دردکا مداوا کرے۔ دوسری جانب یہ بڑا المیہ ہے کہ ضلعی آفیسران اور متعلقہ محکموں کے ریجنل عہدیداران کی جانب سے غفلت بھی برتی جارہی ہے جس کا خود نوٹس وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے لیا تھا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں مقامی نمائندگان اس انسانی بحران کے دوران بھی غیر ذمہ دارانہ اورمجرمانہ غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ شفاف اور منصفانہ طریقے سے متاثرین کوامداد فراہم کی جائے اور اس کی نگرانی خودوزیراعظم اوروزیراعلیٰ بلوچستان مشترکہ ٹیمیں تشکیل دیکر کریں تاکہ ان غریبوں کا حق نہ مارا جاسکے اور کرپشن نہ ہوکیونکہ ماضی ہمارے سامنے ہے کہ اس طرح کی آفت زدہ حالات میں بھی بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے جو کہ انتہائی غیرانسانی رویہ ہے ا مید ہے کہ بلوچستان کے بے سہارا متاثرین کی داد رسی کرتے ہوئے ان کی مشکلات میں کمی لائی جائے گی۔