ملک میں تقسیم اور انتشار کی سیاست زور پکڑ رہی ہے، سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریاں شروع ہوئیں اس روز یہ بیانیہ لایا گیا کہ بیرونی سازش سے پیسے لیکر ہماری حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ اسلام آباد کے جلسے میں خط باربار لہرا کر یہ بات کہی گئی اور اس کا بھی زوروں سے تذکرہ کیا گیا کہ عسکری قیادت کے سامنے بھی خط کو رکھا گیا تمام ذمہ داران شریک تھے مگر بعدازاں آئی ایس پی آر کی جانب سے اس کی ایک بار نہیں متعدد بار تردید سامنے آئی، لیکن پی ٹی آئی بضد رہی کہ نہیں امریکہ نے سازش کرکے ہمیں نکالا،سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے گئے تمام تروسائل سازشی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے صرف کیے گئے ،سیاستدانوں کی کھلے عام تذلیل کا ٹرینڈ بھی شروع کیا گیا۔
جہاں چند پی ٹی آئی ورکرز عام شہری کے بھیس میں حملہ آور ہوکر انہیں لوٹالوٹا کہتے رہے ۔ماحول کو اس قدر پراگندہ کیا گیا کہ عزت نفس بھی محفوظ نہیں رہی اس سے قبل بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے قائدین نازیبا الفاظ مخالفین کے خلاف بولتے رہے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ان تمام ترحالات نے تقسیم کو فروغ دیااور عوام کے اندر تفریق پیداہوگئی، عدلیہ کو تقسیم کیا گیا، میڈیا کے اندر بھی بلاک بن گئے پھر رہی سہی کسر شہباز گل کے گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل میں انٹرویو جس میں وہ فوج کے معاملات میں مداخلت اور تقسیم کی بات کررہے تھے جس کے بعد ان کی گرفتاری عمل میںلائی گئی اور بغاوت کامقدمہ درج کرلیا گیا۔ اس عمل کے بعد پی ٹی آئی نے ایک بار پھریوٹرن لیا ہے کہ ہمارا بیانیہ کبھی ایسا نہیں رہا ہے ہم صرف حکومت کے خلاف ہیں ہم تفریق نہیں چاہتے اداروں کے خلاف نہیں ہمارے اپنے ادارے ہیں۔
شہباز گل کے ادا کیے گئے الفاظ کی تائید کوئی نہیں کررہا، خاص کر عمران خان خود بھی اس سے اپنے آپ کو دور رکھ رہے ہیں یہ بیان دیاجارہا ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے یقینا جو کچھ کہاگیا ہے انہی لفظوں کے چناؤ کے مطابق ہی کیس چلے گا قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے آئین اور قانون کی حکمرانی ضروری ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے مگر اب جو صورتحال بنائی گئی ہے اس نے ملک کے اندر انتشار سیاسی عدم استحکام پیدا کردیا ہے ۔پنجاب حکومت نے پولیس آفیسران کو معطل کردیا ہے جبکہ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ عمران خان پر کیسز بن سکتے ہیں تو رانا ثناء اللہ ودیگر پر کیوں نہیں بن سکتے ۔
یہ واضح تقسیم وفاق اور صوبوں کے درمیان دکھائی دے رہا ہے جس مائنڈ سیٹ کے ساتھ عمران خان اپنے پتے کھیل رہا ہے اس سے شاید وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے۔ عمران خان ہمیشہ بیک فٹ پر کھیلتے دکھائی دیتے ہیں سیاسی معاملات سے لیکر دیگر ضروریات کے لیے انہوں نے لوگوں کو استعمال کیا۔ یہ کہنا مناسب تو نہیں مگر سچ یہی ہے کہ آج سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی مچی ہوئی ہے جس طرح سے نوجوانوں سے کام لیاجارہا ہے یوتھ کو باربار متوجہ کرکے عمران خان انقلابی بنانے کی بات کرر ہے ہیں مگر ان کے اپنے بچے اس پورے انقلابی عمل سے دور ہیں۔ ان کے اہلخانہ بھی تمام تر معاملات سے دور دکھائی دیتے ہیں عمران خان کو جب جلسے کرنے ہوتے ہیں تو اس کے لیے بھی اہم شخصیات کی اے ٹی ایم چاہئے اپنے ذاتی اخراجات سے انہیں کچھ کرنا نہیں جب حکومت تشکیل دینی پڑی تو جہانگیر خان اور علیم خان کے اے ٹی ایم کو استعمال کیا ،پارٹی کو چلانے کے لیے فنڈنگ بھی ممنوعہ طور پر لی گئی جس پرالیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا ہے۔ البتہ عمران خان اس وقت جس خطرناک کھیل کو آگے لے جارہے ہیں اس سے صرف تقسیم اور انتشار کی صورتحال پیداہوگی جوکہ خود ان کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔