بلوچستان میں بارش اور سیلابی ریلوں کی تباہ کاریاں جاری ہیں اس وقت اگر ملک میں سب سے بڑاکوئی مسئلہ ہے تو وہ بلوچستان میں قدرتی آفت کا ہے جو عوام پر قیامت بن کر ٹوٹی ہے بلوچستان کا نصف سے بھی زیادہ علاقے بری طرح متاثر ہیںلوگوں کا سب کچھ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ختم ہوکر رہ گیا ہے اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ مالی نقصانات کے ساتھ جانی نقصان بھی بہت ہوا ہے ۔ مگر افسوس کہ اس وقت بلوچستان پر زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے سارامعاملہ سیاست کی نذر ہورہا ہے سیاست ہمارے یہاں بہت ہوتی رہتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا شاید اس تناؤ میں کمی نہ آئے۔
افسوس کی بات ہے کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ایک ایسی جنگ چھڑ گئی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے حصے کی تباہی سب کی نظروں سے اوجھل ہوکر رہ گئی ہے مین اسٹریم میڈیا سے لے کر وفاق اور سینیٹ میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہورہا جب ہرپریس کانفرنس سیاست پر ہورہی ہے ایک دوسرے پر شدید ترین الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ستر سال سے زائد عرصہ ہوگیا کبھی میثاق جمہوریت تو کبھی میثاق معیشت کی بات ہوتی ہے اورجو اس ملک کی معیشت، سیاست میں اہم کردار عوام ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ،خدارا اپنی سیاست کے ساتھ بلوچستان پر توجہ دیں یہ سب کی ذ مہ داری ہے اور بارہا یہ تذکرہ کیاگیا ہے کہ بلوچستان کے حالیہ بحران کو سنجیدگی سے لیاجائے، بڑے پیمانے پر انسانی بحران جنم لے رہے ہیں یہ صوبائی حکومت کے اکیلے کی بس کی بات نہیں ہے محدود وسائل میں رہتے ہوئے صوبائی حکومت اور محکمے اپنا کام کررہے ہیں مگر وفاق سمیت دیگر اداروں کو آگے بڑھنا چاہئے ۔
حالیہ سیلابی ریلوں سے بلوچستان کے علاقوں موسیٰ خیل، بارکھان اور کوہلو میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، موسٰی خیل میں مکانات گرنے سے7 افراد جاں بحق اور7 افراد ریلے میں بہہ گئے۔سیلابی ریلے کے باعث درجنوں گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے،کوہلو میں متعدد ندیوں میں طغیانی آنے سے کئی سڑکیں زیر آب آگئیں، درجنوں دیہات کا ضلعی ہیڈ کوارٹر سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ تحصیل درگ میں 2 ڈیم ٹوٹنے سے 100 سے زائد مکانات تباہ ہوگئے، ڈپٹی کمشنر کے مطابق لورالائی سے امدادی ٹیمیں تحصیل درگ پہنچنا شروع ہوگئی ہیں، درگ میں مواصلاتی نظام شدید متاثر ہوا ہے اور 5 ہزار سے زائد مویشی بھی بہہ گئے ہیں۔پی ڈی ایم اے کے مطابق شمال مشرقی بلوچستان میں مون سون کا طاقت ور سسٹم موجود ہے جس سے موسلادھار بارشیں متوقع ہیںیعنی مزید صورتحال گھمبیر ہونے کے خطرات موجود ہیں لہٰذا اس جانب تمام تر توجہ مبذول کی جائے تاکہ بلوچستان کے عوام کا بھلاہوسکے۔
دوسری جانب وزیراعظم کی زیرصدارت سیلاب متاثرہ علاقوں پر قائم ریلیف کو آرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ متاثرہ خاندانوں کو 3 دن کے اندر 50 ہزار روپے فی کس امداد فراہم کی جائے، سیلاب متاثرہ خاندانوں کو رقم بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے دی جائے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ متاثرین کو امداد کی فراہمی کے طریقہ کار کو شفاف رکھا جائے، کیش امداد کی فراہمی الیکٹرانک ٹرانسفر کی جائے، امداد تقسیم کا لائحہ عمل کمیٹی طے کرکے رپورٹ دے گی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ سیلاب نقصانات کے تخمینے کے لیے صوبوں کے ساتھ مشترکہ سروے3 ہفتوں میں مکمل کیا جائے۔وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف سے درخواست ہے کہ بلوچستان پرزیادہ توجہ دیں کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ متاثر بلوچستان ہوا ہے امید ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کو نظرانداز نہیں کرے گی۔