|

وقتِ اشاعت :   August 20 – 2022

پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے کہ شہباز گل کو پولیس کی حراست میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایاجارہا ہے، ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھاجارہا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین ،سابق وزیراعظم عمران خان نے یہاں تک الزام لگایا ہے کہ شہباز گل کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی گئی ہے، اس عمل کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیاگیا۔ پمز اسپتال میں عمران خان شہباز گل سے ملاقات کے لیے پہنچے تو ان کی ملاقات نہیں کرائی گئی قانونی آرڈر لانے کی ان سے درخواست کی گئی۔

جس کے بعد انہیں ملاقات کی اجازت دی جائے گی۔ بہرحال بغیر ملاقات کے عمران خان واپس چلے گئے مگر جس طرح کا ٹرینڈ اور پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے اس کے ثبوت اب تک سامنے نہیں آئے ہیں ،یقینا تشدد کسی پر ہو وہ قابل مذمت ہے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے مگر ماضی میں شہباز گل خود کیافرماتے تھے وہ ریکارڈ پر موجودہے کہ براہ راست آئی جی پولیس پنجاب کو رگڑا دینے کی بات کررہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے کہا کہ ان کی قبر پر آکر بھی پریس کانفرنس کرونگا ۔شہباز گل یہ تمام باتیں پارٹی کی مرضی ومنشاء کے مطابق ہی کررہے تھے اب حالت یہ ہے کہ شہباز گل کے عسکری ادارے کے خلاف اشتعال انگیزی اور اُکسانے والے بیان سے پارٹی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کررہی ہے۔

پچھلے تمام ریکارڈ کو اٹھاکر دیکھاجائے تو پی ٹی آئی نے کسی ایک ادارے کو بھی نہیں بخشا،یہ لاڈلا پن اُس وقت شروع ہوا جب ن لیگ کی حکومت تھی ،پی ٹی وی کی عمارت کے اندرپی ٹی آئی کے کارکنان داخل ہوئے توڑپھوڑ کی حملہ آور ہوئے، سپریم کورٹ جیسے بڑے ادارے کے سامنے کپڑے لٹکائے گئے ،پورے اسلام آباد کو مکمل طور پر جام کرکے رکھ دیا گیا تھا، یہ خاص سہولت پی ٹی آئی کو حاصل تھی میڈیا ہاؤسز اور ان کے نمائندگان کی بھی تضحیک کرتے رہے، آج وہ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے دن منارہے ہیں اور لیکچر دے رہے ہیں کہ میڈیا کی آزادی ضروری ہے ،یہ تمام تر عوامل صرف اس لیے ہیں کہ پی ٹی آئی دوبارہ وہی سہولیات چاہتی ہے جو2018ء سے لیکر 2022ء تک ان کو دی گئی اور اس دوران انہوں نے خود کیا کچھ نہیں کیا، مخالفین کو جیل میں ڈال کر ان پر جھوٹے الزامات لگائے ،کس طرح ان کو سیل میں رکھاگیا ،کیس پر کیس بنائے گئے جن کے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ آج پی ٹی آئی مکافات عمل کا شکار ہے اب ان کے خلاف گھیرا تنگ ہورہا ہے۔

تو معافی تلافی سمیت دوبارہ حکومت میں آنے کے لیے منت ترلے کررہے ہیں کہ نیوٹرل کو نیوٹرل نہیں رہنا چاہئے۔ عجیب بات ہے کہ نام نہیں لے رہے کہ نیوٹرل کون ہیں اتنی ہمت تک نہیں کہ کس کو دعوت دے رہے ہیں اور کس لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں جبکہ یہ دعویٰ عمران خان خود کرتے آرہے ہیں کہ پوری عوام ان کے ساتھ کھڑی ہے تو پھر نیوٹرل کا تذکرہ کیوں کررہے ہیں اور کیوں نام لیکر نہیں بتارہے ۔بہرحال اب بھی سیاسی انتقامی کارروائی اورکسی بھی شہری کو تشدد کا نشانہ بناناقابل مذمت ہے شہباز گل پر تشدد کی انکوائری ہونی چاہئے رپورٹ مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو الزامات لگارہے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثبوت بھی لائیں محض الزامات نہ لگائیں۔ دوسری جانب وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے کہا ہے کہ شہباز گل پر تشدد کی من گھڑت مہم چلائی جا رہی ہے۔شہباز گل پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔

شہباز گل پر تشدد اور جنسی زیادتی سے متعلق بعض افراد کی طرف سے من گھڑت مہم چلائی جارہی ہے۔ عدالتی حکم پر تشدد سے متعلق ابتدائی رپورٹ پر کام شروع ہوچکا ہے اور بیانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔پولیس حکام نے کہا کہ پولیس امن و امان کی بحالی کے لیے کام کرتی ہے تاہم بدنام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اگر کسی بھی شخص کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ فراہم کرسکتا ہے اور عوام بلا تصدیق کسی بھی جھوٹی مہم کا حصہ نہ بنیں۔پولیس کا مؤقف واضح طور پر سامنے آگیا ہے اگر پی ٹی آئی کے پاس ثبوت ہیں تو منظر عام پرلے کر آئے، من گھڑت پروپیگنڈہ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا مگر یہ سب کچھ دباؤ بڑھانے کے لیے کیاجارہا ہے ۔شہباز گل کے ساتھ ہمدردی کس قدر ہے یہ واضح ہوگئی ہے اصل میں پی ٹی آئی چیئرمین کو بچانے کے لیے پریشر کو برقرار رکھاجارہا ہے کیونکہ شہباز گل نے کچھ اُگل دیا تو یقینا مزید گرفتاریاں عمل میں آئینگی جس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی ہوسکتے ہیں۔