کراچی کے این اے 245میں پی ٹی آئی کی جیت اور حکومتی اتحاد ی جماعت ایم کیوایم کی شکست کو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت ان کے رہنماء اپنے بیانیہ اور تبدیلی کو قرار دے رہے ہیں درحقیقت یہ مکمل زمینی حقائق کے برعکس ہے۔ کراچی ملک کا سب سے قدیم، سب سے بڑا اور ریونیو دینے والا شہر ہے اس کی آبادی بھی سب سے زیادہ ہے اور مسائل بھی بہت زیادہ ہیں یہ حلقہ ایم کیوایم پاکستان کا ہر وقت رہا ہے اور انہی کے امیدوار ہی یہاں سے منتخب ہوتے آئے ہیں 2018ء میں پی ٹی آئی نے پہلی بار یہاں سے کامیابی حاصل کی اور امیدوار بھی ایم کیوایم کے سابق رہنماء مرحوم عامر لیاقت حسین تھے اب دوسری بار بھی بازی پی ٹی آئی لے گئی ہے اس حلقے میں بہت زیادہ گھمبیر مسائل ہیں پی ٹی آئی نے خود اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں کراچی میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی جس پر یہ جتایا جائے کہ اسے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ پڑے ہیں۔
کراچی شہر کے لیے کوئی بڑا کارنامہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں سرانجام نہیں دیا جس سے لگے کہ کراچی کے عوام کی سیاسی سوچ تبدیل ہوگئی ہے اب بھی اس حلقے کے عوام یہی فریاد کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہاں سے جیت کر جانے والوں نے حلقے کی طرف کسی قسم کی توجہ نہیں دی، انفراسٹرکچر اسی طرح تباہ وبرباد ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، پانی اور سیوریج کا بہت بڑا مسئلہ موجود ہے ۔پی ٹی آئی نے اپنے ہی حلقوں کے نمائندگان کو کتنی رقم دی کہ کم ازکم وہ اپنے علاقوں کے مسائل حل کرسکیں ماسوائے احتجاج کے ان کی کارکردگی صفر ہی رہی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ ان کی جانب سے جاری ہے ۔پی ٹی آئی کے ایم پی ایز اور ایم این ایزنے اپنے ذاتی فنڈزتک خرچ نہیں کئے جس سے زمین پر کوئی تبدیلی واضح طور پر نظر آسکے، لہٰذا اس جیت کو عمرانی انقلاب اور بیانیہ سے جوڑنا گمراہ کن پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پانچ لاکھ سے زائد ووٹر اس حلقے میں ہیں جبکہ ایک لاکھ ووٹ بھی نہیں پڑے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹ ڈالنے کی شرح کیا رہی اور ایم کیوایم پاکستان، آزاد امیدوار فاروق ستار، پی ایس پی اور ٹی ایل پی بھی میدان میں تھے ۔ پی ٹی آئی کے امیدوار محمود مولوی نے 29ہزار457، ایم کیوایم پاکستان کے معید انور نے 13ہزار193، سابق ایم کیوایم پاکستان رہنماء آزاد امیدوار فاروق ستار نے 3ہزار 479جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے محمد احمد رضا نے 9ہزار 836ووٹ لیے ۔ اگر سیاسی جائزہ اور عوامی رائے کا اندازہ لگایاجائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایم کیوایم میں دھڑہ بندی نہ ہوتی پی ایس پی اور فاروق ستار آج اسی جماعت کے اندر ہوتے تو نتائج بالکل ہی الگ نکلتے مگر ایم کیوایم پاکستان کو نقصان اسی تقسیم کی وجہ سے ہوا ہے ، البتہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ طویل عرصے تک وفاق اور سندھ حکومت میں رہنے والی ایم کیوایم پاکستان نے کراچی کے لیے کوئی خاص کارنامہ نہیں دکھایا جس کی وجہ سے عوام مایوس دکھائی دے رہی ہے یہ ایم کیوایم کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ مستقبل میں وہ اپنے حلقوں میں کیا ایسے کام کرے کہ عوامی رائے ان کے حق میں جائے اورعوام ووٹ دینے کے لیے باہر نکلے ،یہ بڑا امتحان ہوگا۔
دوسری جانب کراچی میں پی ٹی آئی کے فیصل وائوڈا کی نشست پر ضمنی الیکشن کے دوران پیپلزپارٹی نے معرکہ مار لیا تھا ،اب بھی پیپلزپارٹی اپنے ووٹ بینک اور عوام کے ساتھ مسلسل جڑا ہوا ہے لیاری کی نشست پر بلاول سمیت ایم پی ایز کی شکست کے باوجود پیپلزپارٹی نے لیاری میں بڑے منصوبے دیے ہیں اب لیاری میں عمران خان بمقابلہ سردار نبیل گبول ہوگا مگر اس بار نتیجہ کچھ اور ہی برآمد ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ سردار نبیل گبول اس حلقے سے کبھی نہیں ہارے ،تمام تر مشکلات کے باوجود انہوں نے لیاری کو نہیں چھوڑا جب سے سردار نبیل گبول کو قومی اسمبلی کی نشست پر ٹکٹ ملا ہے سیاسی ماحول کو گرم کئے رکھا ہے، مسلسل پیپلزپارٹی کی جانب سے کارنرمیٹنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور رابطہ مہم کے حوالے سے بھی پیپلزپارٹی کے قائدین متحرک دکھائی دے رہے ہیں جبکہ نبیل گبول خود بھی لیاری میں مسلسل دورے کررہے ہیں البتہ اب یہ ووٹنگ کے دن ہی واضح ہوجائے گا کہ لیاری کا تاج کس کے سر سجے گا، ویسے حالات یہی بتارہے ہیں کہ پیپلزپارٹی معرکہ مارے گی۔