|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2022

بارش برسانے والا ایک اور مضبوط سسٹم شمالی بلوچستان میں داخل ہو گیا ہے جبکہ ندی نالوں میں طغیانی، رابطہ سڑکیں بہہ جانے اور پل ٹوٹنے کے باعث بلوچستان کا ملک کے دیگر تمام صوبوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق بارشیں برسانے والا مضبوط سسٹم جنوب وسطی اور مغربی بلوچستان تک پھیل رہا ہے جس کے باعث چمن شہر کے نواحی علاقوں میں تیز ہواؤں کے ساتھ موسلادھار بارشیں ہو رہی ہیں۔چمن میں کئی علاقوں کے برساتی نالوں میں طغیانی کے باعث رابطہ سڑکیں بند ہیں، شہر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی متاثر ہیں۔

لیویز کنٹرول کے مطابق کوہ خواجہ عمران کے دامن میں سیلابی ریلوں میں رابطہ سڑکیں بہہ گئی ہیں جس کے باعث سپینہ تیزہ اور غوژئی کے دیہات کا 3 دن سے چمن شہر سے رابطہ منقطع ہے۔مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بارش سے متاثرہ علاقوں میں دوبارہ بارش سے مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور امدادی کاموں میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔قلعہ عبداللہ، توبہ اچکزئی اور گلستان میں موسلادھار بارشوں کے باعث رابطہ سڑکیں آمدورفت کے لیے بند کر دی گئی ہیں جبکہ توبہ اچکزئی میں برج متکزئی ڈیم اوور فلو ہونے کے باعث سیلابی پانی آبادیوں میں داخل ہو گیا ہے۔

ادھر پشین، برشور، خانوزئی، کان مہترزئی اور مسلم باغ میں گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جبکہ لورا لائی، ژوب، میختر، شیرانی، دکی اور زیارت میں بھی بادل خوب برس رہے ہیں۔لیویز حکام کے مطابق خانکہ ندی میں پھنسے اسسٹنٹ کمشنر مسلم باغ ذکاء اللہ درانی کو بحفاظت نکال لیا گیا، اسسٹنٹ کمشنر مسلم باغ سیلاب سے متاثرہ علاقہ جاتے ہوئے خانکہ ندی میں پھنس گئے تھے۔

نئے طاقتور اسپیل نے بلوچستان کے بالائی اور شمالی علاقوں میں پھر سے سیلابی صورتحال بنا دی ہے، بالائی علاقوں میں سیلابی ریلوں سے کئی مکانات اور باغات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ڈیرہ بگٹی، بارکھان، کوہلو، موسیٰ خیل میں تیز بارش کے باعث برساتی نالوں میں طغیانی آ گئی ہے جس سے مختلف علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔شدید بارشوں، ندی نالوں میں طغیانی اور رابطہ سڑکیں بہہ جانے کے باعث بلوچستان کا سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ساتھ زمینی رابطہ کٹ گیاہے۔

صوبے میں بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں 98 افراد زخمی ہوچکے ہیں جن میں 55 مرد، 11 خواتین اور 32 بچے شامل ہیں۔سیلابی ریلوں اور بارشوں سے مجموعی طور پر بلوچستان میں 27 ہزار 747 مکانات نقصان کا شکار ہوئے، ایک لاکھ 7 ہزار 377 سے زائد مال مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے، اب تک مجموعی طور پر دو ایکڑ زمین پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔بلوچستان میں اس وقت سیلاب کے باعث صورتحال ابتر ہے پہلے جو تباہ کاریاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ اب تک نہیں ہورہا ہے اب بارشوں کانیااسپیل داخل ہوگیا ہے

جس سے خدشہ ہے کہ مزید تباہی ہوگی جو بڑے انسانی بحران کا سبب بن سکتا ہے۔واضح رہے کہ اس تباہی نے تمام تر ریکارڈ توڑ دیئے ہیں بہت بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں جس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے وزیراعظم میاں محمدشہباز شریف کی جانب سے ڈونرکانفرنس کی بات کی گئی ہے اس پر تیزی کے ساتھ کام ہونا چاہئے جلدازجلد اس کا انعقاد کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں جو تباہی ہوئی ہے اس کا ازالہ ممکن ہوسکے اور اس وقت جولوگ بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ان کو محفوظ مقامات پر منتقل کیاجائے کیونکہ وبائی امراض پھوٹنے کی وجہ سے مزید جانی نقصان کا خطرہ پیدا ہوگا جسے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا لہٰذا حکومت کی تمام تر توجہ اور مشینری اسی پر صرف ہونا چاہئے۔