طوفانی بارشوں اور سیلاب نے پاکستان میں کراچی سے لیکر گلگت بلتستان تک ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے، بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کے ساتھ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، عوام کھلے مقامات پر زندگی گزارے پر مجبور ہیں ،ہیضے اور پیٹ کی تکلیف سمیت دیگر بیماریاں بھی جنم لینے لگی ہیں۔نوشہرہ کے علاقہ خویشگی پایاں میں دریائے کابل کے حفاظتی پشتے ٹوٹنے سے پانی قریبی گھروں میں داخل ہو گیا جس کے باعث خویشگی پایاں کے رہائشی گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے۔
دیامر میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے، بارش اور سیلاب کا پانی سڑکوں اور کھیتوں میں کھڑا رہنے سے مکانات اور فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔بلوچستان میں سیلابی ریلوں سے مزید 6 ڈیم ٹوٹ گئے جبکہ صوبے میں مجموعی اموات کی تعداد 241 تک پہنچ گئی ہے۔مقامی انتظامیہ کے مطابق سیلاب کی وجہ سے زیارت، پشین اور مستونگ کے علاقوں میں کئی آبادیاں ڈوب گئی ہیں، واشک، خضدار اور بولان میں بجلی کے مین ٹاور گرنے سے علاقوں میں بجلی بند ہو گئی اور موبائل فون سروس کے ساتھ انٹرنیٹ سروس بھی بند رہی۔صوبائی انتظامیہ کا بتانا ہے کہ سیلابی ریلوں نے صوبے میں ایک ہزار کلو میٹر پر مشتمل مختلف شاہراہوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت سے سیلاب متاثرین کے لیے مدد کی اپیل کی ہے۔
ترجمان کے پی کے حکومت بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے سندھ کے سیلاب زدگان کی مدد کی، خیبر پختونخوا حکومت کی بھی مدد کریں۔سندھ کے مختلف شہروں میں 3 روز سے جاری بارش کا سلسلہ تو تھم گیا ہے لیکن ہر جگہ کئی کئی فٹ پانی جمع ہونے سے عوام کی مشکلات برقرار ہیں۔لاڑکانہ میں پانی جمع ہونے کے باعث شہر کے مختلف علاقوں کی صورتحال ابتر ہے، بارش کا پانی سیشن کورٹ کی عمارت اور چانڈکا پروفیسر کالونی میں بھی موجود ہے، ڈی سی ہاؤس، سی ایم سی ٹیچنگ اسپتال اور چانڈکا میڈیکل کالج زیر آب آ گئے ہیں۔دوسری جانب وفاقی ،صوبائی حکومتوں سمیت پاک فوج کی جانب سے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں ریسکیو اور ریلیف آپریشن کے لیے پاک فوج کی جانب سے ملک بھر میں ریلیف کیمپ قائم کردیا گیا ہے کیمپ میں راشن، خیمے سمیت دیگر سامان جمع کیاجارہا ہے تاکہ انہیں متاثرہ علاقوں تک پہنچاکر متاثرین میں تقسیم کیاجائے جبکہ وفاق صوبائی حکومتوں سمیت عالمی تنظیموں کی جانب سے بھی فنڈز مختص کردیئے گئے ہیں ۔بہرحال اس وقت ملک ایک نازک صورتحال سے دوچار ہے۔
اس آفت نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں بہت زیادہ جانی ومالی نقصانات ہوئے ہیں بعض علاقوں تک رسائی ممکن نہیں ہورہی ہے جس کی وجہ دوبارہ بارش اور سیلابی ریلوں سے زمینی رابطوں کا منقطع ہونا ہے فضائی آپریشن بھی جاری ہے اس مشکل گھڑی میں تمام مخیر حضرات کو بھی آگے بڑھنا چاہئے تاکہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے بھائی بہنوں کی مدد کی جاسکے کیونکہ یہ ایک ایسی تباہی ہے جس کی حکومت اکیلا مقابلہ نہیں کرسکتی ،جتنا ممکن ہے وہ کیا جارہا ہے عوام کو بھی چاہئے اس صورتحال میں اپنی سکت کے مطابق سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ جلد اس مصیبت اور آفت سے نکلاجاسکے۔
دوسری جانب کھڑی فصلیں تباہ ہونے کی وجہ سے زمینداروں کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے اورساتھ ہی سبزیوں سمیت دیگر اشیاء کی قلت بھی مارکیٹ میں پیدا ہوئی ہے۔ امید ہے کہ سیاسی سرگرمیوں سے زیادہ ترجیح موجودہ آفت ہوگی تاکہ متاثرین کو مشکل سے نکالاجاسکے۔