|

وقتِ اشاعت :   August 31 – 2022

کوئٹہ; انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (آئی ٹی سی)کے حبیب اللہ ناصر،کنسلٹنٹ پروفیسر سبحان قریشی نے کہا ہے کہ ان کے پروجیکٹ کا مقصد پالیسی سازی اور قانون سازی کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی آرا اور تجاویز لیکر ایسا ڈرافٹ حکومت کو مہیا کرنا ہے.

جس سے اسٹیک ہولڈرز اور معاشرے کے افراد کو یکساں مستفید ہونے کے مواقع میسر آ سکے۔دودھ،ڈیری،میٹ انڈسٹری،کیمل اور شپ فارمنگ،ویلیو ایڈیشن سمیت دیگر کی بہتری ہماری اولین ترجیح ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان کے عہدیداران و ممبران کے ساتھ لائیو اسٹاک بریڈنگ پالیسی 2022کے سلسلے میں منعقدہ اجلاس کے موقع پر کیا۔

اس سے قبل چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان کے سابق صدر جمعہ خان بادیزئی،حاجی اختر کاکڑ و دیگر نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ویسے تو بلوچستان میں اسی نوعیت کے بہت سے منصوبے شروع ہونے کے بعد ختم بھی ہوئے مگر وہ نشستا، خوردا اور برخاستا سے زائد کچھ نتائج نہ دے سکے ہمیں اس سے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے،انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گلہ بانی،دودھ،ڈیری و دیگر پیداواری شعبہ جات میں سرمایہ کاری اور کام کے بہت سے مواقع موجود ہیں لیکن اس کیلئے ہمیں روائتی طور طریقوں سے نکل کر سائنسی خطوط پر کام کرنے کی ضرورت ہے،

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بہت بڑی آبادی کا ذریعہ معاش لائیو اسٹاک،ڈیری فارمنگ و دیگر سے وابستہ ہے مگر حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے اس کی ویلیو ایڈیشن انتہائی کم ہے اور لوگ زیادہ محنت کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔ لیپی اسکین بیماری اور مرغیوں کی مختلف بیماریوں کا سد باب نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے جانور اور مرغیاں مر جاتی ہیں مگر اس بابت حکومتی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے امسال بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور سیلابی صورتحال نے نا صرف زراعت کے شعبے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے بلکہ اس سے گلہ بانی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے.

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں دودھ کے نام پر بچوں کو زہر پلایا جا رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔انہوں نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے معاملات کو صرف اجلاس تک محدود رکھنے کی ضرورت نہیں ہے مشکلات مستقبل میں بھی ہوں گی لیکن مکالمہ ہوتے رہنا چاہیے۔اس موقع پر انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر(آئی ٹی سی)کے حبیب خان ناصر،پروفیسر سبحان قریشی کا کہنا تھا کہ ان کے پروجیکٹ کا مقصد پالیسی سازی اور قانون سازی ہے ہم حکومت کے ساتھ مل کر سلاٹر پالیسی،پولٹری پروڈکشن،انڈسٹری ایکٹ و دیگر کیلئے پالیسی اور قانون سازی پر کام کر رہے ہیں،

ہمیں روائتی طریقوں کی بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ایسا ڈرافٹ تیار کر کے حکومت کے حوالے کرنا ہے جس سے اسٹیک ہولڈرز سمیت معاشرے کے ہر فرد کو فائدہ پہنچے ہم،ملک،ڈیری میٹ انڈسٹری،کیمل اور شپ فارمنگ و دیگر کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں ہم مارکیٹنگ اور ویلیو ایڈیشن، پرائس کنٹرول کے متعلق کام کر رہے ہیں.

اس مقصد کیلئے محکمہ پی ڈی ایم اے،محکمہ ماحولیات،چیمبر آف کامرس،لائیو اسٹاک و دیگر کے حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو تمام امور کے متعلق کام کرے اجلاس کے دوران ڈائریکٹر انوائرمنٹ ڈاکٹر مجیب الرحمن کا کہنا تھا کہ کہ ہمیں گلے شکوے کرنے کی بجائے ان شعبوں میں کام کرنا چاہیے جہاں ضرورت ہے بلوچستان میں بہترین چراگاہیں اور جانور موجود ہیں لیکن ان کے دودھ اور گوشت کو سائنسی بنیادوں پر محفوظ کر کے دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

اس کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہی بہترین حل ہے ہمیں مقابلے کا رجحان پیدا کرنا ہوگا تاکہ عوام کو سہولیات کی فراہمی سمیت ملک اور صوبے کی معاشی خوشحالی کا سامان ہو سکے ہمیں ڈیزاسٹر اور کلائمٹ چینج کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔