اس دیس کے واسی کئی سال قحط جھیلتے رہے کئی سال افلاس برداشت کرتے رہے کئی سال بدامنی کا سامنا کرتے رہے۔یہ دیس تو ابھی بدل رہا تھا بزرگ واسی اپنے دیس لوٹے تھے ان کے چہرے کھل اٹھے ان کی امیدیں بر آئیں۔وہ قحط زدہ بدامن ماضی کو بھلا چکے تھے۔وہ اس دیس میں پھر سے جی اٹھے تھے۔وہ کھل کھلاتی لہلہاتی جھومتی فصلوں کو دیکھ کر شاد ہوتے تھے وہ تابناک مستقبل کے خوابوں سے ابھی نہیں نکلے تھے پھر اچانک سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا۔سب کچھ مون سون بارشوں کی نذر ہو گیا سب کچھ سیلاب برد ہوگیا۔نہ رہنے کے لیے گھر بچے نہ کھانے کے لیے اناج۔کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں جانور بہہ گئے۔
جی میں جس دیس کی بات کر رہا ہوں وہ چھتر ہے جوبلوچستان کے ضلع نصیرآباد میں واقع ہے۔نصیر آباد کی تحصیل چھتر بھی سیلاب برد ہوا ہے۔تحصیل دو حصوں میں منقسم ہے ایک اندرون چھتر دوسرا بیرون چھتر۔اندرون چھتر پٹ فیڈر کینال کے دہانے پر ہے جن میں مختلف دیہات آباد تھے۔ سیلاب سے تقریباً دیہات زیرآب آئے ہیں جتنی بھی کچی آبادی تھی ان کے گھر سیلاب کی نذر ہوئے اب وہاں کے باسی بے یارو مدگار کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔بیرون چھتر جو تحصیل چھتر کا بڑا حصہ ہے جن میں مختلف دیہات آباد تھے وہ بھی زیرآب آئے ہیں اور وہاں سب کچھ تہس نہس ہو گیا ہے۔
فلیجی نامی ایک گاؤں جو تحصیل چھتر کی ایک یونین بھی ہے ستر فیصد لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ چھتر بیرون کا مواصلاتی نظام بھی ٹھپ ہے کیونکہ چھتر کی اہم سڑک جو اسے ڈیرہ مراد جمالی شہر سے ملاتی ہے ربیع کے مقام پہ پل سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ چکی ہے جس سے آمدورفت کا سلسلہ منقطع ہے۔انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور غفلت کی وجہ سے پل تا حال تعمیر نہ ہو سکی۔گزشتہ کئی دنوں سے چھتر فلیجی گوٹھ کورار کے باسی فاقوں پہ مجبور ہیں۔ریلیف تو اپنی جگہ انتظامیہ ابھی تک پل نہ بن سکی۔لوگ سوشل میڈیا پہ چیخ چیخ کے تھک گئے ہیں کچھ کیا جائے لیکن انتظامیہ بہری بنی ہوئی ہے۔کوئی پرسان حال نہیں۔آج کسی رشتہ دار سے رابطہ ہوا اس نے بتایا کہ لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہے کھانے کے لیے۔لوگ بیمار پڑے ہیں ادویات نہیں۔راستہ نہیں ہے کہ انھیں علاج کے لیے لایا جائے۔
ہمارا گورننس سسٹم اتنا ناپائیدار ہے کہ وہ لوگوں کو ریسکیو نہیں کر سکتا۔وہ ایک پل تعمیر نہیں کر سکتا تاکہ آمدو روفت بحال ہو یا کوئی ایسا متبادل مکینزم نہیں جس سے لوگوں کو بچایا جاسکے اور نظام زندگی کوبحال کیا جائے۔
حکومت وقت سے گزارش ہے کہ چھتر واسیوں کی خبر لی جائے وہ جس اذیت سے گزر رہے ہیں ان کواس کرب سے نجات دلائی جائے۔وہ پہلے بھی اس سیلاب سے بہت کچھ کھو چکے ہیں اب ان کی جانیں بچی ہیں کہیں ایسا نہ ہوصبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے لوگ فاقوں سے دم توڑنے لگیں۔
چھتر واسیوں کی خبر لی جائے۔
وقتِ اشاعت : September 1 – 2022