|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2022

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردی کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع کردی۔

دہشت گردی کے مقدمے کی سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے۔

اے ٹی سی عدالت نے دہشت گردی کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو آج 12 بجے تک پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا تھا۔

واضح رہے کہ 25 اگست کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی دہشت گردی کے مقدمے میں ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں یکم ستمبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

عمران خان کے وکیل بابراعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس عمران خان کو لکھ کر بھیجتی ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، گزشتہ سماعت پر مجھے دھکم پیل کے بعد عدالت میں داخل ہونے کا موقع ملا تھا۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر نے کہا کہ پہلے ملزم کو عدالت میں پیش کریں، پھر ہم بحث کریں گے، جج نے مقدمہ کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جن کو دھمکی دی گئی، ان کا بیان بھی پڑھ کر سنائیں، اس فرض شناس افسر نے اس سے پہلے کتنے دہشتگردی کے مقدمہ کیے ہیں۔

اس دوران اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو 12 بجے طلب کرلیا، جج نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ سماعت کی طرح عدالت میں غیر متعلقہ افراد نہ آئیں، میں نے عدالت دیکھنی ہوتی ہے، کوئی نظر ہی نہیں آتا، آج 3 عدالتیں کھلی ہیں، آپ لسٹ دینگے، صرف وہ ہی وکلا کمرہ عدالت میں آئیں گے۔

اس کے علاوہ، عدالت کو بتایا گیا کہ عمران خان کے خلاف مقدمے میں نئی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں، عمران خان کے خلاف درج مقدمے میں مزید 4 دفعات شامل کی گئی ہیں، دہشتگردی کے مقدمہ میں 506،504،186 اور 188 دفعہ شامل کی گئی ہیں۔

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے استدعا کی کہ ان دفعات میں بھی عمران خان کی ضمانت منظور کی جائے،جج نے ریمارکس دیے کہ ان دفعات میں ہم نوٹس جاری کریں گے، جج نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ کیا سیون اے ٹی اے جرم کے بغیر کبھی درج ہوئی ، آپکو بتانا ہوگا کونسی کلاشنکوف لی گئی، کونسی خودکش جیکٹ پہن کر حملہ کیا گیا۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ 12 بجے تک کا وقت دیا جائے، عمران خان کو پیش کردیں گے، اگر میرے موکل کو کچھ ہوا تو آئی جی اور ڈی آئی جی آپریشنز ذمہ دار ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی جج نے سماعت میں 12 بجے تک کے لیے وقفہ کرتے ہوئےکہا کہ عمران خان کو آج عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑےگا۔

بعد ازاں، پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں 2 تحریری جواب جمع کروائے ہیں، عدالت میں بتایا ہے کہ میرے کلائنٹ کو کچھ ہوتا ہے تو حکومت ،آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد ذمے دار ہوں گے۔

بابر اعوان نے کہا کہ ایک تو سیکیورٹی عمران خان سے لے رہے ہیں اور دوسرا کسی صوبے کی پولیس ان کے ساتھ یہاں نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا ہمیں بنی گالہ میں ایک تھریٹ لیٹر دیا گیا ہے کہ کچھ لوگ خان صاحب کو مارنا چاہتے ہیں، تھریٹ لیٹر عدالت میں جمع کروا دیا ہے، عدالت نے کہا کہ عمران خان کو پیش ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے عدالت میں کہا عمران خان کون سے مےفیر میں ہیں، بنی گالہ میں ہیں 12 بجے لے آؤں گا۔

اس موقع پر انسدادِ دہشت گردی عدالت کے اطراف سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں، وکلا سمیت صحافیوں کے بھی جوڈیشل کمپلیکس میں جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔