|

وقتِ اشاعت :   September 7 – 2022

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیس میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی ضمانت میں 27 ستمبر تک توسیع کر دی۔

اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن عدالت میں آج دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیس میں عمران خان سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔

دوران سماعت مقدمے میں نامزد پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا اور اسد قیصر کی بھی حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کی گئی۔

فیصل واوڈا کے وکیل سردار مصروف خان نے استدعا کی کہ فیصل واوڈا عمرے کی ادائیگی پر گئے ہوئے ہیں، آج حاضری سے معافی کی درخواست منظور کی جائے۔

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ مقدمہ ایک ہی ہے اور دلائل بھی ایک جیسے ہی ہوں گے،

جج نے پولیس سے استفسار کیا کہ تفتیشی کون ہے؟ کیا تفتیش مکمل ہے؟ تفتیشی آفیسر نے جواب دیا کہ ریکارڈ بھی موجود ہے اور تفتیش بھی مکمل ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ اسد عمر راستے میں ہیں، جب مقدمہ ہوا وہ لاہور میں تھے، اسد عمر کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی موجود تھی۔

بابر اعوان نے ایڈیشنل سیشن جج کا آگاہ کیا کہ عمران خان 9 حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں، وہ آج پیش نہیں ہوں گے، حاضری سے استثنٰی کی درخواست منظور کی جائے۔

جج نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ الیکشن کب ہو رہے ہیں، بابر اعوان نے بتایا کہ الیکشن 25 ستمبر کو ہو رہے ہیں، تھانہ آبپارہ میں درج مقدمہ میں دفعات قابل ضمانت ہیں، عمران خان کے خلاف یہ 21 واں مقدمہ ہے جس میں ضمانت لے رہے ہیں، دفعہ 506 (2) میں 3 سال سزا ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ دفعہ 506 (2) ناقابل ضمانت ہے۔

دوران سماعت وکیل سردار مصروف خان کے بات کرنے پر بابر اعوان برہم ہوگئے اور سرادر مصروف خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے انگلش آتی ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ مجرمانہ سازش کہاں پر کس نے کی ہے؟ اس کیس کی برآمدگی کیا کرنی ہے؟

جج نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اسد عمر کی حد تک میرٹ پر تفتیش کریں، اگر اسد عمر شامل نہیں ہیں تو ان کو مقدمے سے فارغ کریں۔

دوران سماعت اسد قیصر کے وکیل شجر عباس ہمدانی نے بھی حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کر دی، فیاض الحسن چوہان کے وکیل نے استدعا کی کہ فیاض الحسن چوہان کو مقدمہ سے بری کیا جائے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ ضمانت کی اسٹیج پر ہم کیسے ملزم کو مقدمہ سے بری کر سکتے ہیں؟

اسد قیصر کے وکیل شجر عباس ہمدانی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کے موکل کا پشاور میں کیس تھا اس لیے وہ پیش نہیں ہوں گے۔

بابر اعوان نے کہا کہ سینیٹر سیف اللہ نیازی بھی اس وقت اسلام آباد میں نہیں تھے، سیف اللہ نیازی اس وقت میٹنگ ہیڈ کر رہے تھے۔

جج نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ یہ سب سن رہے ہیں؟ دیکھ لیں اگر کوئی شامل نہیں تھا اس کو مقدمہ سے فارغ کریں۔

بعد ازاں عمران خان، اسد عمر، اسد قیصر اور فیصل واوڈا کی استثنی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ملزمان کی ضمانتوں میں 27 ستمبر تک توسیع کردی گئی۔

بعد ازاں بابر اعوان نے اسلام آباد کچہری میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کا موقف ہے کہ الیکشن کروایا جائے اور الیکشن اتنا قریب ہے جتنا آپ سمجھ ہی نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا، پنجاب اور گلگت بلتستان کی سب سے بڑی پارٹی کے خلاف مقدمات بنائے گئے، آج فاضل عدالت کے سامنے کیس تیار کر کے آیا ہوں، آج ہم نے اسلام آباد پولیس کے خلاف پہلا قدم بڑھا دیا ہے، اب اگر انصاف نہ ہوا تو ہم عدالتوں میں ان سب کو لائیں گے جو سرکار سے تنخواہ لیتے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ کل یوٹیوب کو بین کیا گیا جو افسوسناک ہوا، ہم دہشت گردی کی جنگ کے خلاف سنجیدہ ہیں، جو وعدہ کر کے مکر جائے تو اسے ہم کہتے ہیں نہیں چھوڑوں گا۔

خیال رہے کہ 25 اگست کو دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت کے بعد دفعہ 144 کے مقدمے میں بھی عمران خان کی ضمانت منظور ہوگئی تھی۔

اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود شہباز گل کی حمایت میں احتجاجی جلسہ کرنے پر درج مقدمے میں ضمانت کے لیے عمران خان اپنے وکلا بابر اعوان، فیصل چوہدری، سردار مصروف خان اور قیصر جدون کے ہمراہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر عباس سپرا کی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے مقدمے میں 5 ہزار کے مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کر تے ہوئے آج پولیس کو ریکارڈ سمیت طلب کیا تھا۔

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں‘۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔