پروفیسر ڈاکٹر سارہ عنایت کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ انہوں نے 2002 میں کوئٹہ سے ایم بی بی ایس کیا اور پھر 2005 میں پوسٹ گریجویشن کے لیے لاہور چلی گئیں۔ شیخ زاہد ہسپتال لاہور سے ایم سی پی ایس کیا اور پھر میو ہسپتال لاہور میں ڈاکٹر سبرینہ کے زیر سایہ میڈیسن اور ڈرمیٹالوجی میں اپنی تربیت شروع کی۔ انہوں نے ڈاکٹر سبرینہ سے نہ صرف ڈرمیٹالوجی بلکہ انسانی ہمدردی کا سبق بھی سیکھا تھا اور پھر وہ کوئٹہ کے لوگوں کی خدمت کے لیے ایم سی پی ایس اور ایف سی پی ایس کی ڈگریاں لے کر واپس کوئٹہ آگئی۔ وہ اپنے خاندان کی پہلی ڈاکٹر تھیں جو اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور گئیں۔
کوئٹہ واپس آنے کے بعد، سب سے پہلے ڈاکٹر سارا نے غلام میڈیکل ہسپتال میں بطور میڈیکل آفیسر شمولیت اختیار کی، اور پھر کمیشن کا امتحان پاس کیا اور بی ایم سی ہسپتال کوئٹہ سربراہ کے طور پر اسسٹنٹ پروفیسر آف ڈرمیٹولوجی انچارج کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ اس وقت ایف سی پی ایس کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ اس کو پہچاننے کے لیے انہیں بہت کوششیں کی گئیں اور 2019 میں ڈاکٹر شمس الدین کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے بطور میڈیکل آفیسر صوبائی سنڈیمن ہسپتال جوائن کیا۔
ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ماہر امراض جلد پروفیسر ڈاکٹر سارہ کہتی ہیں کہ شروع میں ہمارے پاس صرف تین پیجیز تھے اور ساتھ میں ان کے شاگرد بھی لیکن آج دو سال کے بعد دو ہزار ان کے شاگرد اور چالیس پیجیز ہیں جو ان کی سربراہی میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ میں نے دو سالوں میں صوبہ بلوچستان کو تین ایم سی بی ایس اروردو ایف سی پی ایس مہیا کیے۔
ڈاکٹر سارا کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم اپنے ڈیپارٹمنٹ میں اپنے مریضوں کو جلد کے جدید علاج فراہم کر رہے ہیں جس میں پی آر پی، پیلنگ،اورا مائیکرو نیڈل ینگ، شامل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جیسے ٹیکنالوجی میں ایڈوانس ہوگئی ہے اسی طرح سے جلد کے لئے بھی جدید علاج مارکیٹ میں آگئے ہیں جس کے لئے ہمیں حکومت کی جانب سے کوئی خاص ادویات میسر نہیں اسی لیے میں اور میرے ڈاکٹرز بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ اپنی عطیات سے اور وارڈ فنڈ کے ذریعے یہاں پر مختلف ادویات منگوائی جائیں جس سے مریضوں کا مفت علاج کر سکیں جو استطاعت نہ رکھتے ہوں کیونکہ ہمارے بہت سے ایسے مریض ہیں جو نہ صرف کوئٹہ بلکہ افغانستان سے بھی آتے ہیں۔ہمارے سینئر ڈاکٹر ماہانہ عطیات سے اس ڈیپارٹمنٹ کو چلانے میں خیر خواہ ہیں۔
ٹرینی ڈاکٹر سحرش غنی کا کہنا ہے کہ جلد کے امراض کے لئے سب سے پہلے آپ کو کاٹن سرنج اور اسپدٹ سے بہت کام پڑتا ہے جو ہم نے بہت معمولی رقم سے شروع کیا لیکن جدید علاج کے لیے ہمارے پاس مختلف ادویات کا ہونا لازمی ہے۔حکومت کی طرف سے ہمارے پاس جلد کی صرف دو ادویات میسر ہیں۔
جلدی امراض کی بیماریوں میں خارش کے مریض ہمارے پاس بہت زیادہ ہیں اور سیلاب کے بعد یہ بیماری بہت حد تک بڑھ گئی ہے۔
ڈاکٹر سحرش کہتی ہیں کہ سیلاب کے بعد سب سے زیادہ مریض scabies یعنی خارش کے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ان ہائی جینک کنڈیشن ہے اور اس کا علاج کرنے کے لئے ہم میڈیکل کمپنیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ ہمارا ساتھ دیں۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شروع میں یہ ڈیپارٹمنٹ کھنڈرات نما تھا جہاں صرف چار ٹیبل اور ایک کرسی ہوا کرتی تھی اب اس میں میل اور فیمیل دونوں وارڈز کی سہولت دی جاتی ہے یہ سب ڈاکٹر سارہ کی جدوجہد ہے۔ انہوں نے جلدی امراض کے ڈپارٹمنٹ کو aesthetic sense دیا تاکہ جب مریض آئیں تو وہ اس ہسپتال کا یہ ڈیپارٹمنٹ دیکھ کر دنگ رہ جائیں اور خوش ہوں انہوں نے ہمارے لیے ایک لائبریری بھی کھلوائیں تاکہ ہمیں ڈیپارٹمنٹ سے دور نہ جانا پڑے اور ہم فارغ اوقات میں اپنی پڑھائی بھی جاری رکھ سکیں۔
سینیئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر سعدیہ ندیم ایم سی پی ایس کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ہماری او پی ڈی ہوتی ہیں جس میں چار سو سے سات سو تک مختلف جلدی امراض کے مریض ہوتے ہیں۔ جن میں سے جلدی امراض کے کچھ سنجیدہ مریض ہوتے ہیں۔ ان کو ڈاکٹرز کی طرف سے خصوصی دیکھ بھال مہیا کی جاتی ہے۔
آجکل نوجوانوں کا سب سے زیادہ مسئلہ ہیئر فال،ایکنی ایگزیما اور چھائیوں جیسی بیماریوں کا ہے اور سب سے زیادہ مریض ہمارے پاس ان بیماریوں کے آتے ہیں۔ جلدی امراض کی تشخیص کے لیے سب سے پہلے مریض کی بائیوپسی کرتے ہیں جلد کے امراض کو پہچاننے کے لئے بائیوپسی سب سے اہم عمل ہے جس سے مرض کی تشخیص ہو سکے کہ آیا مریض کو کون سا جلدی مرض ہے۔ڈاکٹر سارہ کے مطابق لیزر مشین کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کی دوائی کا خاص خیال رکھا جائے اس کو ایک خاص درجہ حرارت کے تحت سورج کی روشنی اور سخت سردی سے محفوظ رکھا جائے تاکہ اس کے استعمال کی معیاد کو بڑھایا جا سکے کیونکہ ہر انسان کی سکن ٹائپ الگ ہوتی ہے اور ہر مریض کے ہمیں مختلف سیشنز کرنے ہوتے ہیں تاکہ سکن جلد ہی ریکوری کی طرف آ سکے۔
ڈاکٹر سارہ کہتی ہیں کہ جب سے ایم ایس ڈاکٹر امین مندوخیل آئے ہیں انہوں نے مرمت کے کاموں میں ہماری بہت مدد کی ہے اور سب سے بڑھ کر سال دانہ کی بیماری کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ مل کر سال دانہ کے مریضوں کے لئے مفت علاج کروایا جائے کیونکہ 10 سے 15 فیصد مریض ہر مہینے علاج کے لئے آتے ہیں۔ جن میں دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے غریب عوام بھی شامل ہے۔
سال دانہ کے علاج کیلئے ایران سے انجکشن بھی آتے ہیں لیکن ان کی کوئی خاص گارنٹی نہیں جو ادویات ڈبلیو ایچ او مہیا کرتا ہے پھر بھی اس پر غور کر سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر سال دانا کیلئے سینٹر کا قائم کیا جائے جس میں مریضوں کا بھرپور طریقے سے علاج ہو اور مریض اس سے مستفید ہو سکیں۔
جلدی امراض میں آئے مریضوں سے ہم نے جب بات کی تو پتہ چلا کہ لوگ سارہ عنایت کی کاوشوں کو بہت سراہارہے ہیں مریضوں کا کہنا تھا کہ جلدی امراض کا علاج مہنگا ہونے کے باعث ہر کوئی مہنگے ڈاکٹروں کا رخ نہیں کر سکتا لیکن ڈاکٹر سارا کی وجہ سے ہمیں یہ سہولت مہیا ہوئی ہے کہ ہم جلدی امراض کا مہنگا علاج گورنمنٹ ہسپتال میں کروا سکیں۔