پولیو کاموذہ مرض اور ہمارے رویے

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

پولیو کے شکار لوگوں کو مسئلہ صرف بچپن میں ہی نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں یہ معذوری ان کو نت نئے مسائل اور پریشانیوں میں مبتلا کرتی رہتی ہے۔ سریاب کی رہائشی مریم بی بی کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ہے اس وقت ان کی عمر 25 برس ہے مریم بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے والد پولیو کے قطروں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ان کی فیملی ایک پولیو انکاری فیملی تھی جس کی وجہ سے آج میرا یہ حال ہوا ہے۔مریم بی بی کے والد حاجی عارف کا کہنا ہے مجھے مریم کی بیماری کا احساس دو سال کی عمر میں ہوا جب اسے چلنے میں دشواری محسوس ہوئی۔ اس دوران مریم کی طبیعت بھی کافی خراب رہتی تھی جب اپنے علاقے کے ڈاکٹروں کو دکھایا تو پتہ چلا مریم کو پولیو ہو گیا ہے یہ سن کر میں کافی پریشان ہوا کیونکہ میں انتہائی پولیو کے قطرے پیلانے کے خلاف تھا میں پولیو کے قطروں کو محض ایک نسل کشی سمجھتا تھا کہ اسے پلانے سے بچے جلدی بڑے ہو جاتے ہیں اور خصوصا بچیوں کے ہارمونز پر کافی فرق پڑتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی سمجھتا تھا کہ یہ امریکی سازش ہے۔

امراض قلب ، کارڈیک سرجری اور سول سنڈیمن ہسپتال

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

صحت اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور بلاشک جس طرح صحت کسی بھی ریاست کا بہت اہم شعبہ ہے اسی طرح ہر شہری کو صحت کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے۔صحت کی اچھی او رمعیاری سہولیات تک رسائی عوام کی اولین ضرورت ہے تاہم بدقسمتی سے بلوچستان میں صحت کے شعبے کی حالت مکمل اطمینان بخش نہیں مختلف النوع مسائل ہیں اور خاص طور پر غریب خاندانوں کو اپنے مریضوں کے علاج کے لیے کافی مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود صحت کے شعبے میں محدود وسائل کے باوجود اچھا اور معیاری کام بھی ہورہا ہے جس کی بین مثال سول ہسپتال کوئٹہ میں امراض قلب کا شعبہ ہے سول ہسپتال کوئٹہ میں کارڈیک سرجری کے کامیاب آپریشن جاری ہیں۔

جلدی امراض کے جدید علاج میں ڈاکٹر سارہ عنایت کی خدمات

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

پروفیسر ڈاکٹر سارہ عنایت کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ انہوں نے 2002 میں کوئٹہ سے ایم بی بی ایس کیا اور پھر 2005 میں پوسٹ گریجویشن کے لیے لاہور چلی گئیں۔ شیخ زاہد ہسپتال لاہور سے ایم سی پی ایس کیا اور پھر میو ہسپتال لاہور میں ڈاکٹر سبرینہ کے زیر سایہ میڈیسن اور ڈرمیٹالوجی میں اپنی تربیت شروع کی۔ انہوں نے ڈاکٹر سبرینہ سے نہ صرف ڈرمیٹالوجی بلکہ انسانی ہمدردی کا سبق بھی سیکھا تھا اور پھر وہ کوئٹہ کے لوگوں کی خدمت کے لیے ایم سی پی ایس اور ایف سی پی ایس کی ڈگریاں لے کر واپس کوئٹہ آگئی۔ وہ اپنے خاندان کی پہلی ڈاکٹر تھیں جو اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور گئیں۔