|

وقتِ اشاعت :   September 20 – 2022

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے صوبے میں سیلاب کے باعث نقصانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب کی صورتحال پر سیر حاصل بحث کر کے تجاویز مرتب کی جائیں، نصیر آباد ڈویژن میں سیلاب کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے، اسمبلی اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو وفاق سے صوبے کے لئے امداد کے حوالے سے معاملات پر بات چیت کرے،پیر کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے دس منٹ کی تاخیر سے قائم مقام اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا۔

اجلاس میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے عوامی اہمیت کے حامل نکتے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں سیلاب نے تباہی مچادی ہے صوبے کا نقشہ تبدیل ہوکر رہ گیا ہے تمام اضلاع تباہی و بربادی کا منظر پیش کر رہے ہیں اندازے کے مطابق کھربوں روپے کے نقصانات ہوئے ہیں فصلیں،باغات،زمینداری، مکانات،لائیو سٹاک بری طرح متاثر ہوئے ہیں لہذا سیلاب کی تباہ کاریوں اور آئندہ کے لائحہ عمل کیلئے اسمبلی میں ایک دن مقرر کیا جائے جس میں سیرحاصل بحث کرکے اراکین اسمبلی کی تجاویز مرتب اورانہیں ڈونر زو وفاقی حکومت کو بھیجا جائے قائم مقام اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ اسوقت ایوان میں وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری سمیت دیگر حکام موجود نہیں ہیں لہذا اس پر جمعرات کو بحث کی جاسکتی ہے تاکہ تمام لوگ یہاں موجود ہوں جس پربی اے پی کے رکن میرظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان کی سیلاب کی صورتحال پر اقوام متحدہ نے تشویش کااظہار کیا ہے امریکی کانگریس میں بھی اس پر بات ہوئی ہے صوبے کا ہرحلقہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے لوگ ابھی بھی کھلے آسمان تلے بھوکے اور پیاسے مر رہے ہیں

امراض پھیل رہے ہیں اور دن بدن اموات ہورہی ہیں اس اہم مسئلے کو ترجیح دی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث چارسو گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں ماحولیاتی تبدیلی میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے جبکہ ملک بھر میں 100ارب اور بلوچستان میں 2سوسے 300ارب کے نقصانات ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومتی اداروں،وفاقی حکومت،مخیر حضرات نے ابتک اپنا وہ کردارادا نہیں کیا جوانہیں کرنا چاہئے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پورے ملک میں سیلابی صورتحال ہے لیکن اگر بلوچستان پرتوجہ نہ دی گئی تو اموات بڑھنے کا خدشہ ہے اس حوالے سے کمیٹی بنائی جائے جو صورتحال کا باقاعدہ جائزہ لے۔رکن صوبائی اسمبلی میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ میں صحبت پور سے آیا ہوں حالیہ بارشوں اورسیلاب سے نصیرآباد میں تباہ کاریاں ہوئی ہیں صحبت پور میں 100فیصدگھر ختم ہوگئے ہیں 2لاکھ20ہزار لوگ سڑکوں اور ٹیلوں پر بیٹھے ہیں مگر انہیں ترپال یا ٹینٹ تک دستیاب نہیں اتنی بڑی تباہی سے نمٹنااکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں ہے بلوچستان کو پورے ملک کی مدد کی ضرورت ہے پی ڈی ایم اے نے اس طرح سے فعال کردار نہیں نبھایا امدادکی منصفانہ تقسیم نہیں ہوئی پی ڈی ایم اے بتائے کہ وہ کس طرح اور کیسے امداد تقسیم کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تفصیلات نہ بتانے سے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں

بلوچستان اسوقت المیے سے گزر رہا ہے اس پرتوجہ دی جائے پورے نصیرآباد کا یہ مطالبہ ہے کہ ایک جے آئی ٹی بنائی جائے کہ کس طرح پورا نصیرآباد پانی میں ڈوبا یہ سب کچھ محکمہ آبپاشی کی وجہ سے ہوا ہے پٹ فیڈر کی ڈی سیلٹنگ پر پیسے خرچ ہوئے ہیں پھربھی اس پر شگاف آئے کچھی کینال صرف 20کلومیٹربنا ہے شگاف پڑنے کی وجہ سے صحبت پور میں تباہی ہوئی ریگولیٹر بند کرنے سے نصیرآباد پر بوجھ آیا اور صحبت پور کو تباہ کردیا گیا حیردین ڈرینج پر کام نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ صحبت پور میں پانی کھڑا ہے وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں پانی نکالنے کیلئے کام نہیں کیا جارہا یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کام کرے یہاں بچے مر رہے ہیں لوگوں کو ریلیف نہیں مل رہاڈیرہ اللہ یار اور گنداخہ بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف 10ٹینکروں سے پینے کا پانی مہیاکیا جارہا ہے

جوکہ ناکافی ہے ہمیں پی ایس ڈی پی اور ترقیاتی کاموں سے زیادہ عوام کی جانیں عزیز ہیں اگر پی ایس ڈی پی کے پیسے ریلیف میں لگادیئے جائیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ 50دن تک جاری رہنے والی بارشوں نے صوبے بھرمیں تباہی مچائی ہے نصیرآباد سمیت دیگر علاقے ڈوبے ہوئے ہیں لوگ پریشان ہیں کہ انہوں نے جو پیسے قرض پرلیکرزمینداری کی تھی وہ کیسے ادا کریں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی ایک یا دو سال میں ممکن نہیں اس میں وقت لگے گااوراربوں روپے خرچ ہونگے جبکہ صوبائی حکومت کے پاس صرف ترقیاتی مد میں 80ارب روپے ہوتے ہیں اسمبلی کو ملکر وفاق سے احتجاج کرنا چاہئے وفاق نے ابتک ہمیں کچھ نہیں دیابتایا جائے کہ بیرونی امداد کا کتنا فیصد حصہ صوبے کو ملا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جو وفاق سے صوبے کا حصہ اورا مداد کا حساب لے۔ صوبائی مشیرداخلہ میرضیاء اللہ لانگو نے کہاکہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے لوگوں کی نظریں کرپشن پر ہوتی ہیں یہ ایک انسانی المیہ ہے اس میں جو کرپشن کریگا وہ انسانیت کے زمڑے میں نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ ابتک بارشوں کے 6سپیل آئے ہیں پی ڈی ایم اے نے محدود وسائل کے باوجود بلوچستان کو بچایا ہے صحبت پور میں فراہم کیا گیا سامان اسمبلی کاریکارڈ بنانا چاہتا ہوں اس موقع پرانہوں نے سامان کی تفصیل دی جو قائم مقام اسپیکر نے ایوان میں پڑھ کر سنائی۔میرضیاء لانگو نے کہا کہ سلیم کھوسہ کو تفصیلات بتانا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے ہم نے صحبت پور کیلئے ہرممکن امداد مہیا کی ہے سلیم کھوسہ سے 15ایکڑ زمین پر خیمہ بستی بنانے کی درخواست کی تھی انہوں نے زمین نہیں دی جس کے بعد میراظہارکھوسہ نے اپنی زمین دی ہے اس موقع پر میرسلیم کھوسہ نے کہاکہ مشیرداخلہ نے غلط اعدادو شماردیئے ہیں 10ہزار ٹینٹ پورے بلوچستان میں نہیں ملے مشیرداخلہ غلط بیانی کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ میری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ہے وہ کیسے اس پرخیمہ بستی بناسکتے تھے۔صوبائی مشیر آبپاشی محمد خان لہڑی نے کہا کہ نصیرآباد میں پانچ لاکھ کیوسک پانی آیا اتنی بڑی مقدار میں پانی کے آنے سے علاقے کو بچانا ناممکن تھاپنجاب اور ڈیرہ بگٹی کا پانی بھی نصیرآباد آیا کچھی کینال کی گنجائش 6700کیوسک ہے جبکہ اس میں 15ہزار کیوسک پانی آیا ہے ہم نے کوشش کی کہ کینال اور علاقہ دونوں کو بچائیں زیادہ پانی آنے کی وجہ سے تین،چار مقامات پرشگاف پڑے 11ڈسٹری بیوٹیز متاثر ہوئیں تین،چار دن میں پٹ فیڈر کا پانی بحال کریں گے

نصیرآباد میں پانی آنے کے معاملے پر جے آئی ٹی بننی چاہئے اسکی حمایت کرتے ہیں۔اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ورکن بلوچستان اسمبلی اصغر خان اچکزئی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی کے خالق داد بابڑ کو 14 اگست کو شہید کیا گیا ان کی شہادت کیخلاف خوست کے مقام پرمیت کے ہمراہ دھرنا دیا گیااور حکومت سے مذاکرات کے بعدمیت دفنا دی گئی تاہم واقعہ کیخلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے آج موسیٰ خیل میں مظاہرہ ہورہا ہے انہوں نے کہاکہ حکومت اور دھرنے کے شرکاء کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا ماسوائے ایک کے باقی چار مطالبات پر عملدآمدنہیں ہورہا ہے جس پر صوبائی مشیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ 14اگست کو پیش آنے والے واقعے کے بعد دیئے گئے دھرنے کے شرکاء سے حکومتی وفد نے مذاکرات کئے حکومت نے دھرنے کے شرکاء کے تمام مطالبات مان لیے ہیں تاہم کچھ قانونی تقاضے تھے جنہیں ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے حلپورے کردیئے ہیں

آج کل میں یہ مسئلہ حل ہوجائیگا۔ اصغر اچکزئی نے کہاکہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی قراردادوں پر عملدرآمدنہیں ہوتا گزشتہ اجلاس میں اے این پی کے رکن اسمبلی شائینہ کاکڑ نے ڈسٹرکٹ مسلم باغ کے حوالے سے قرار داد پیش کی تھی جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تاہم بورڈ آف ریونیو اس قرار داد پر عملدرآمد نہیں کررہا انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے استدعا کی کہ وہ اس سلسلے میں رولنگ دیں ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ بورڈ آف ریونیو نے کمشنر ڑوب کو لیٹر لکھا ہے کمشنر ڑوب کی جانب سے جواب آنے کے بعد اس پر عملدآمد کیا جائیگا۔

اجلاس میں وفقہ سوالات کے دوران رکن اسمبلی میرعارف جان محمد حسنی نے کہا کہ اسمبلی کو ریکوڈک معاہدے پر ان کیمرہ بریفنگ دی گئی تھی میں اس اجلاس میں موجود نہیں تھا لہذابطور چاغی کے رکن اسمبلی مجھے ریکوڈک کے معاملے پربریفنگ دینے کی رولنگ دی جائے جس پر صوبائی وزیرمبین خلجی نے کہا کہ وہ اس حوالے سے تازہ سوال لے آئیں تو انہیں بریفنگ دے دی جائے گی