|

وقتِ اشاعت :   September 22 – 2022

بلوچستان میں نچلی سطح پر تعلیمی اداروں کی زبوں حالی، اساتذہ کی غیرحاضری بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں یہ مسئلہ کئی عرصہ سے چل رہا ہے حالانکہ گزشتہ تین حکومتوں کے دوران بجٹ میں سب سے زیادہ رقم تعلیم کے لیے مختص کی جاتی رہی اور اب بھی تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لیے رقم دی جارہی ہے خسارے کا بجٹ ہونے کے باوجود تعلیم کے لیے رکھی گئی رقم میں کوئی کمی نہیں لائی گئی

کیونکہ اس کا بنیادی مقصد بلوچستان کو پڑھالکھا اور ترقی یافتہ بناناہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا ۔جدید علم اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی ترقی اور خوشحالی کے اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں مگر اس کے لیے ایک پورا میکنزم بھی ہونا چاہئے محض رقم مختص کرنے سے کسی بھی شعبے میں ترقی نہیں آتی بلکہ بہترین اساتذہ ، اداروںکو جدید خطوط پر استوار کرنے اورہر وہ سہولیات فراہم کرنا جو اداروں کی ضرورت ہوتی ہے

جبکہ بہترین اور ماہر اساتذہ کلید ی کردار ہوتے ہیں جن کی تعیناتی مستقل بنیادوں پر ہونا ضروری ہے ،سفارش اور سیاسی بھرتیوں سے بالاتر ہوکر اس کام کو آگے بڑھاکر ہی تعلیمی شعبے میں بہتری لائی جاسکتی ہے ،بدقسمتی سے بوگس بھرتیوں، غیر حاضر اساتذہ کی وجہ سے سرکاری اسکولوں، کالجز کی حالت زار خراب ہے کیونکہ وہ خود ہی دلچسپی نہیں لیتے ،یہ نہیں کہ تمام اساتذہ مگر بہت سارے اساتذہ ایسے ہیں جو اپنے فرائض سرانجام نہیں دیتے صرف تنخواہ لیتے ہیں جن کی پشت پناہی شخصیات او رسیاسی حوالے سے کی جاتی ہے جبکہ یونینز کے ذریعے بلیک میلنگ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے حالانکہ یونینز کا مقصد بہتری لانا ہے جس کی تشکیل اس لیے ہوتی ہے کہ وہ اپنے اداروںسمیت مسائل کو بھرپور انداز میں اجاگر کرسکیں جس میں ان کے اپنے مسائل بھی بیشک شامل ہیں ۔بہرحال عرصہ دراز سے یہ مطالبہ کیاجارہا ہے

کہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کو فعال اور اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنایاجائے تاکہ لاکھوںبچے جو اسکولوں سے باہر ہیں ان کا مستقبل تاریک نہ ہوبلکہ وہ تعلیم حاصل کرکے بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی میں مستقبل میں اپنا کردار ادا کرسکیں اور یہ پہلی سیڑھی ہوتی ہے مگر افسوس کہ اب تک صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کا ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پڑھے لکھے معاشرے کی تشکیل کے لئے اساتذہ کا کردار کلیدی ہے اساتذہ کے ہاتھوں میں ہمارے بچوں کا مستقبل ہے تعلیم اور اس کی اہمیت سے ہم سب آگاہ ہیں جن معاشروں میں علم حاصل کرنے کا جذبہ اور اساتذہ کی عزت و تکریم کی جاتی ہے وہ معاشرے علم و فنون کے میدان میں آگے بڑھتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم نے اپنے معاشرے میں اساتذہ کو وہ عزت اور احترام نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے ہم نے اپنے معاشرے میں اس اہم شعبے کے احترام اور عزت کو بڑھانا ہے،وزیراعلیٰ نے کہا کہ اساتذہ کے لئے میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں ہمیں صرف باتوں کی حد تک نہیں بلکہ عملی کام کرنا ہے جب سے ہم نے حکومت سنبھالی ہمیں ورثے میں احتجاج اور دھرنے ملے جن کا ہم نے بات چیت کے ذریعے موثر طور پر خاتمہ کیا اور تمام دھرنوں اور احتجاجوں کو ختم کرنے کا موثر حل بھی کسی متعلقہ فورم پر اپنی بات کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ میں اساتذہ سے کہتا ہوں احتجاج اور بھوک ہڑتالوں کی بجائے اپنی توجہ طلباء کو تعلیم کی فراہمی پرمرکوز رکھیں کیونکہ ہمارے اساتذہ کا وقت ہمارے بچوں کے لیے بہت قیمتی ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے گلوبل ٹیچرز ایجوکیشن پروجیکٹ بلوچستان کے 1493 اساتذہ کو مستقلی کے آرڈرز دیئے جب کہ اساتذہ کے دیگر مسائل جن میں ٹائم سکیل اور جے وی ٹی ٹیچرز کی پرموشن شامل ہے

ان پر بھی کام ہو رہا ہے ہم نے دور دراز کے علاقوں میں فرائض سرانجام دینے والے ملازمین کے لیے ہارڈ ایریا الاؤنس کا اعلان بھی کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم نے لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا پروگرام دوبارہ سے شروع کیا ہے تاکہ ہم اپنے بچوں اور اساتذہ کو جدید اور ڈیجیٹل انداز سے بھی تعلیم دے سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے کا رقبہ زیادہ ہے اور آبادی کم ہے ہمارے صوبے کا موازنہ دیگر صوبوں سے کرنا درست نہیں ہوگا وہاں رقبہ کم اور آبادی زیادہ ہے اور وسائل کی تقسیم آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے ہمارے سالانہ بجٹ کا 90 فیصد حصہ تنخواہوں میں چلا جاتا ہے

اور ترقیاتی بجٹ کے لیے فنڈز کم ہوتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کی جانب سے اساتذہ کے مسائل اور انہیں حل کرنے کے متعلق سنجیدہ کوششیں قابل ستائش ہیں اسی طرح اساتذہ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے بلوچستان میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں کیونکہ حکومت اور اداروں کی بہترین ہم آہنگی سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں جب نتائج مثبت دیئے جائینگے تو یقینا انہیں ریلیف بھی فراہم کیاجائے گا اور ان کے مطالبات کے حق میں ہر کوئی آواز بلند کرے گا آج اگر پرائیویٹ اسکولوں کی بھرمار ہے تو اس کی بڑی وجہ سرکاری تعلیمی اداروں کی بدحالی اور معیاری تعلیم کا فقدان ہے اس پر اساتذہ ضرور غور کریں۔