|

وقتِ اشاعت :   October 26 – 2022

ملک میں سیاسی حالات کشیدگی کی طرف جانے کے امکانات بڑھنے لگے ہیں ایک ایسے وقت میں جب ملک بہت ساری مشکلات کا سامنا کررہا ہے ایک طرف معاشی صورتحال، سیلاب متاثرین کی بحالی سب سے اہم مسائل ہیں مگر سیاست ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ پی ٹی آئی بضد ہے کہ جلد انتخابات کرائے جائیں حالات جیسے بھی ہوں مگر وہ اپنی خواہشات پر ملک میں سیاست کرنا چاہتی ہے اس زعم میں مبتلاعمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا انقلاب لاکر ملک میں تبدیلی لائینگے جس کا تذکرہ وہ ماضی میں بھی کرچکے ہیں ۔ بہرحال چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے جمعہ سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ ایوان وزیراعلیٰ پنجاب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعے کو لانگ مارچ کر رہا ہوں، لبرٹی چوک لاہور سے ہمارا لانگ مارچ شروع ہوگا، ہمارا لانگ مارچ جمعے کی صبح 11 بجے شروع ہوگا، ہم جی ٹی روڈ سے عوام کو ساتھ لیتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں گے،ہمارا مارچ پُر امن ہوگا، ہم پُرامن احتجاج کرتے ہیں ہمارے جلسوں میں فیملیز آتی ہیں۔

ہم لڑائی کرنے نہیں جارہے نہ ہم ریڈ زون میں جا رہے ہیں، ہم وہاں جلسہ کریں گے جہاں عدالتوں نے ہمیں اجازت دی ہوئی ہے، ہم نے سب کو پر امن رہنے کی ہدایت کی ہے۔دوسری جانب سابق وزیر اعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔اپنی ٹوئٹ میں نواز شریف کا کہنا تھاکہ عمران خان کا لانگ مارچ کسی انقلاب کیلئے نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کیلئے ہے۔ان کا کہنا تھاکہ عمران خان کا انقلاب اس کی 4 سالہ حکمرانی میں عوام دیکھ چکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دوسروں کو چور کہنے والا عمران خان خود فارن فنڈنگ، توشہ خانہ اور 50 ارب کی ڈکیتی کے ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا چور ثابت ہوا ہے۔واضح رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے جمعہ 28 اکتوبر سے لاہور کے لبرٹی چوک سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔

جبکہ حکومت کی جانب سے بھی تنبیہ کردی گئی ہے کہ مکمل بندوبست ہم نے کرلیا ہے کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دینگے اگر حالات کو زیادہ خراب کیاگیا اور نوبت خون خرابے تک پہنچے گی تو اس کی ذمہ دار اپوزیشن ہوگی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے یہ کہاجارہا ہے کہ ہم پُرامن احتجاج کرینگے اگر کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی ۔ اس سے قبل عمران خان خود فرماچکے ہیں کہ پہلے مارچ میں لوگ مسلح تھے اگر ہم دھرنا دیتے تو حالات بہت زیادہ خراب ہوجاتے اور خون خرابہ ہوتا کیا اب اس کی کوئی گارنٹی ہے کہ ہجوم میں جتھے مسلح نہیں ہونگے اور دھرنے کے دوران مشتعل نہیں ہونگے ۔لازمی بات ہے کہ مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکار آمنے سامنے ہونگے تو نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ اب یہ گارنٹی کوئی بھی نہیں دے رہا ہے کہ امن وامان کی صورتحال خراب نہیں ہوگی۔ جب حالات خراب ہونگے تو ذمہ دار اپوزیشن جماعت ہی ہوگی کیونکہ دھرنا دینے وہ جارہی ہے اور جس طرح کا لہجہ استعمال کیاجارہا ہے کہ حالات سری لنکا جیسے ہونگے ملک بند ہوجائے گا تو اس سے کیا مطلب نکالاجاسکتا ہے ۔یعنی سیاسی حوالے سے حالات کشیدہ ضرور ہونگے بس یہ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ انارکی اور انتشار کی طرف حالات نہ جائیں جس سے بہت سارے مسائل پیداہوجائیں۔