|

وقتِ اشاعت :   November 1 – 2022

کوئٹہ: پاکستان کو ایک بار پھر 2014 جیسے سیاسی عدم استحکام کی سی صورتحال کا سامنا ہے ہمارے ہاں عمومی طور پر کسی بھی احتجاج کا پیمانہ شریک افراد کی تعداد سے لگایا جاتا ہے میڈیا ہو یا سیاسی جماعتیں تمام ہی جلسوں میں لگی کرسیوں اور شریک افراد کی تعداد پر تجزیہ کرتے ہیں میں مارچ کی تعداد کی بحث میں نہیں جاؤں گا۔

اس مارچ کے اثرات کی بات کریں تو اس کا اندازہ حال ہی میں ہونیوالی مختلف اہم پریس کانفرنسز سے لگایا جاسکتا ہے عمران خان کی موجودہ لانگ مارچ کی کال اور حکمت عملی ماضی سے کافی مختلف ہے صحافی ارشد شریف کے قتل کے بعد اچانک جمعہ کو لاہور سے لانگ مارچ کے اعلان سے پی ٹی آئی کے کئی قائدین بھی حیران تھے عمران خان کی حکمت عملی سیاسی ضرور ہے کہ جس طرح انہوں نے پریشر بڑھاتے ہوئے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے بیک ڈور رابطے جاری رکھیں ہیں لیکن وہیں انکے خطابات جارحانہ ہیں جسے کاونٹر کرنے میں 12جماعتوں کا حکومتی اتحاد کمزور دیکھائی دے رہا ہے جسکا بھرپور فائدہ پی ٹی آئی کوہورہا ہے۔

اس بارپی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو میڈیا پر وہ کوریج حاصل نہیں جس طرح2014 میں انکے دھرنوں کو میڈیا نے پروان چڑھایا تھا لانگ مارچ میڈیا پر کسی حد تک بلیک آوٹ ہی ہے لیکن اس کے باوجود اس مارچ کی مقبولیت ماضی کے مارچ دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں سے کئی زیادہ ہے۔

12 جماعتی اتحاد اور پائے کے سیاستدانوں سے زیادہ عمران خان کی آسمان کو چھوتی مقبولیت عمران خان کے ساڑھے 3 سالہ حکومت میں رہنے کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے جوکہ آج بھی موجودہ حکمران سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے اگر عمران خان کی حکومت کا دور دیکھا جائے تو انہوں نے یوٹیوبرز ٹک ٹاکرز اور سوشل ایکٹویسٹس کو صحافیوں سے زیادہ اہمیت دی.

پی ٹی آئی نے اپنے سوشل میڈیا ونگ کو حکومت میں آنے کے بعد مزید مضبوط کیا یہی وجہ ہے کہ کہیں سے بھی عمران خان کے بارے میں منفی پوائنٹ سامنے آنے کی دیر ہوتی ہے کہ پی ٹی آئی کے سپوٹرز عمران خان سے پہلے کاؤنٹر بیانیہ بنا دیتے ہیں اور سوشل میڈیا استعمال کرنیوالے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بلا کسی لالچ اور معاوضے کے پی ٹی آئی کے حامی ہیں.

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ روایتی سیاست کی ہے اور کر رہی ہیں جس سے یہ آج تک عوام کو مطمین نہیں کر سکے۔

اداروں کے سیاست میں کردار پر بات کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی اعترافی پریس کانفرنس کافی ہے عمران خان کو کسی نے بھی سپورٹ کیا ہوسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی جماعتوں کا اپنا کردار کیا رہا ہے ایسی کیا وجہ تھی کہ عمران خان کو اتنی مستحکم سیاسی جماعتوں کے درمیان کم ہی عرصے میں اتنا اسپیس مل گیا ؟

اسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ آج بھی سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو سیاست میں مصروف کرنے میں ناکام رہی ہیں کالج یونیورسٹیوں میں طلباء ونگ تو موجود ہیں لیکن سیاست میں نوجوان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں کو سمجھنا ہوگا کہ اب پاکستان میں نوجوانوں اور خواتین کی اکثریت کو نظرانداز کر کے کوئی بھی جماعت اپنی مضبوط جگہ نہیں بنا پائے گی.