|

وقتِ اشاعت :   November 8 – 2022

ملک میں اس وقت ہر معاملہ سیاست کی نذر ہوتا جارہا ہے، واقعات اور سانحات پر شفاف انکوائری بھی مشکوک ہوتی جارہی ہے، یہ بہت بڑا المیہ ہے اگر اس طرح کے رویے جاری رہینگے تو لوگوں کے دلوں میں قانون اور آئین کا احترام سمیت حکومت پر اعتبار نہیں رہے گا۔ چونکہ ہر مسئلے پر سیاست کرکے اس پر من گھڑت افواہیں اور پروپیگنڈے شروع کئے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں زہر بھرا جائے اوروہ کسی طرح سے بھی اعتبار نہ کریں۔

اگر آج پی ڈی ایم حکومت میں ہے تو کل اپوزیشن کی جماعت بھی حکومت میں آئے گی تو پھر اسی طرح واقعات وسانحات پر شکوک پیدا کئے جائینگے لہٰذا قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیاجائے اور نتیجہ سے پہلے معاملے کو مشکوک بنانا کسی طور بہتر نہیں ہے۔بہرحال وزیراعظم شہباز شریف نے سینیئر صحافی ارشد شریف کی موت کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھ دیا۔خط میں ارشد شریف کے جاں بحق ہونے کے حقائق جاننے کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔خط کے متن کے مطابق کمیشن پانچ سوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے۔

ارشد شریف کی بیرون ملک روانگی میں کس نے سہولت کاری کی؟ کوئی وفاقی یا صوبائی ایجنسی، ارشد شریف کو ملنے والی جان کو خطرے کی کسی دھمکی سے آگاہ تھے؟ اگر ارشد شریف کی جان کو خطرہ کی اطلاع تھی تو اس سے بچاؤ کیلئے کیا اقدامات کیے گئے؟ وہ کیا حالات اور وجوہات تھیں جس کی بناء پر ارشد شریف یو اے ای سے کینیا گئے؟ فائرنگ کے واقعات کی اصل حقیقت کیا ہے جن میں ارشد شریف کی موت ہوئی؟ کیا ارشد شریف کی موت واقعی غلط شناخت کا معاملہ ہے یا پھر یہ کسی مجرمانہ کھیل کا نتیجہ ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کیلئے کمیشن کی تشکیل ضروری ہے، وفاقی حکومت کمیشن کو بھرپور تعاون فراہم کرے گی۔خط کے متن کے مطابق ارشد شریف کی والدہ نے آپ سے استدعا کی ہے، ہم اس استدعا کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

ارشد شریف کے جاں بحق ہونے پر وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں پر شکوک وشبہات ظاہر کیے گئے، عوامی اعتماد کی بحالی کیلئے سپریم کورٹ کا کمیشن بنایا جانا ضروری ہے، غیرجانبدار باڈی نے تحقیقات نہ کیں تو طویل المدت بنیادوں پر نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔واضح رہے کہ سینیئر صحافی ارشد شریف کو 23 اکتوبر کو کینیا میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔اس واقعے کے بعد مسلسل متنازعہ رپورٹس کینیا پولیس کی جانب سے اول روز سے آرہی ہیں ۔

اور اس کے بعد اپوزیشن نے بھی اس پر سیاست شروع کردی ہے۔دوسری جانب فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کے دوران مختلف انکشافات کئے،ان تمام تر معاملات سے واقعے کو اور رخ دینے کی کوشش کی گئی مگر اہم بات صرف یہ ہے کہ ارشدشریف کی والدہ اور ان کے اہلخانہ کے مطالبات اور کمیشن کے حوالے سے سناجائے تاکہ ان کو تسلی ہو اور شفاف طریقے سے اس کی انکوائری کی جائے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں اور جو لوگ اس پر گھٹیاسیاست کررہے ہیں، ان کو رپورٹ کے ذریعے جواب مل سکے۔ امید ہے کہ حکومت اپنا کام احسن طریقے سے کرے گی اور اپوزیشن کی من گھڑت افواہوں اورپروپیگنڈے کو پرے رکھتے ہوئے اپناکام کرے گی۔جہاں تک غلیظ الزامات کا معاملہ ہے تو اس پر بھرپور جواب کا حق حکومت رکھتی ہے مگر انصاف کے تقاضوں کوپورا کرناضروری ہے تاکہ قانون پر سب کا اعتبار برقرار رہے۔