|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2022

پاک ایران تعلقات بہت دیرینہ ہیں، معاشی وسفارتی حوالے سے اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بلوچستان کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں ایران سے ملحقہ سرحدوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے ساتھ ہی بہترین تجارت بھی ہوتی رہی ہے مگرکچھ عرصے سے اس میں ایک ٹہراؤ آیاہوا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں آباد لوگوں کی معیشت بہت بری طرح متاثر ہوکر رہ گئی ہے۔ ٹوکن سسٹم سے منظور نظرافراد کو نواز کر سرحد پر تجارت کو محدود کردیا گیا ہے۔

حالانکہ بڑے پیمانے پر چھوٹے اور بڑے تاجر بآسانی ایران سرحد پر کاروبار کرتے آرہے ہیں جس سے سرحدی علاقوں سمیت ملک کے بیشتر علاقے اس سے مستفید ہورہے تھے مگر حالیہ سختی وبندش کی وجہ سے ایرانی مصنوعات پاکستان میں ناپید ہوچکی ہیں۔ ایرانی مصنوعات سستے اور معیاری ہوتے ہیں ۔

جنہیں لوگ بہت زیادہ پسند بھی کرتے ہیں اگر بآسانی تجارت اور اس کو قانونی طور پر ایک راستہ دیاجائے تو بہت سارے لوگوں کے مسائل حل ہوجائینگے۔ یہ تو صرف تجارت کی ایک چھوٹی سی مثال ہے اگر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پر کام کیاجائے تو پاکستان میں موجود توانائی کا بحران ختم ہوجائے گا، گوادر،چابہار کو جڑواں پورٹ بناکر بھی بہت سارے مالی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں مگر افسوس ہمارے یہاں اقدامات کے حوالے سے انتہائی سست روی دکھائی جاتی ہے جس کی ایک وجہ عالمی دباؤ بھی ہے حالانکہ بھارت سمیت یورپ کے بیشترممالک ایران کے ساتھ تجارت کررہے ہیں سینٹرل ایشیاء سے بھی ایران کی تجارت جاری ہے پاکستان کیونکر فیصلہ نہیں کرپاتا حالانکہ ہر کوئی اپنے ملکی مفادات کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے کرتا ہے پاکستان کی حکومت کو بھی چاہئے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ہونے والے پاک ایران گیس پائپ لائن پر کام شروع کرے تاکہ مستقبل میں ملک کو درپیش توانائی بحران کے چیلنج سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔ گزشتہ روز پاکستان ایران جوائنٹ بارڈر کمیشن کا 24واں سالانہ اجلاس دو روز جاری رہنے کے بعد اختتام پذیرہوا۔

اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی جبکہ ایران کی جانب سے وفد کی سربراہی سیستان بلوچستان کے گورنر برائے امن و امان و انفورسمینٹ علی رضا مرحمتی نے کی۔اجلاس میں بارڈر سے متعلق امور، ٹریڈ اینڈ کامرس، سیکیورٹی امور، بارڈر سیکیورٹی،ثقافت اور تعلیم سمیت باہمی تعاون کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اجلاس میں بارڈر سیکیورٹی،انسانی اسمگلنک اور منشیات کی روک تھام بارڈر کے دونوں جانب امن وامان کے قیام کے لیے باہمی تعاون کے فروغ تجارتی،سرگرمیوں میں اضافے کے لیے تاجروں کو سہولیات کی فراہمی، کھیل و ثقافت اور تعلیمی وفود کے تبادلوں سمیت دیگر متعلقہ امور پر اہم فیصلے کیے گئے۔ چیف سیکرٹری بلوچستان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان درینہ دوستانہ تعلقات ہیں دونوں برادر مسلم ممالک نے ہمیشہ دوطرفہ علاقائی تعاون کے فروغ کیلئے کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ سالانہ اجلاس کا مقصد دونوں ممالک کے مابین علاقائی تجارت اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور کو احسن اور منظم انداز سے مزید مستحکم بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی یہی خواہش ہے کہ بارڈر کے دونوں جانب اپنے عوام کی فلاح و بہبود،ترقی اور خوشحالی کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اور ایران دو طرفہ علاقائی تعاون اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور کو جاری رکھیں گے۔ ایرانی وفد کے سربراہ کی جانب سے چیف سیکریٹری کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اسے سراہا گیا۔

بہرحال غیرقانونی اقدامات جو سرحد پر ہوتے ہیں اس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ضروری ہے جس کا پہلے بھی تذکرہ کیا گیا ہے پاک ایران تجارت کو قانونی طور پر آگے بڑھایاجائے اور سرحدی علاقوں کی آبادی کے لیے ریلیف اور آسانیاں پیداکی جائیں،اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر بجلی گیس کے معاہدے بھی ملکی سطح پر کئے جائیں تو پاکستان میں معاشی بہتری آئے گی۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے سوچ بچار کرے گی اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایران کے ساتھ تجارت سمیت دیگر منصوبوں پرکام کرے گی۔