چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ دنیا کے کس ملک میں ہوتا ہے کہ مفرور شخص ملک کی سیکیورٹی سے متعلق اہم فیصلے کرے؟ اس پر قانونی کارروائی کیلئے وکلاء سے مشاورت کررہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر ایک مفرور سے مشورہ سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، اس پر قانونی کارروائی کیلئے ہم اپنے وکیلوں سے بات کر رہے ہیں، اس پر ایکشن لیں گے، آرمی چیف کی اتنی بڑی پوزیشن پر وزیراعظم ایک مفرور سے کیسے بات کرسکتاہے؟الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے یا کب ہوں گے۔
آخر میں ہوں گے یا جلدی ہوں گے؟ کیا وہ مفرور سزا یافتہ الیکشن کے اہم معاملے پر فیصلہ کرے گا؟عمران خان نے کہا کہ وہ شخص آرمی چیف کا تقرر اپنے مفاد کیلئے کرے گا، میرٹ پر نہیں۔ دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق مشاورت وزیراعظم کی صوابدید ہے تاہم تعیناتی کا فیصلہ وزیراعظم نے ہی کرنا ہے۔خواجہ آصف نے میڈیا نمائندگان سے بات چیت کے دوران صحافی کے سوال پر کہا آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ نہیں ہوا۔صحافی کی جانب سے پوچھا گیا کہ نواز شریف کا آرمی چیف کی تعیناتی میں کوئی کردار ہے؟ جس پر خواجہ آصف نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر مشورہ وزیراعظم کی صوابدید ہے۔
وزیراعظم ہی آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کریں گے۔خواجہ آصف سے پھر پوچھا گیا کہ نواز شریف سے کیا کوئی مشاورت بھی نہیں ہو رہی؟ جس پر وزیر دفاع نے کہا کہ ابھی تک آرمی چیف کی تعیناتی پر مشاورت نہیں ہوئی، یہ اخباری خبریں ہیں۔عمران خان کی جانب سے امریکی سازش سے متعلق مؤقف تبدیل کرنے سے متعلق سوال پر رہنما مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کیا عمران خان پہلی بار مکر رہا ہے؟ وہ ہر چیز سے مکر جاتا ہے، گزشتہ 4 سال میں کتنی باتیں کیں،کسی بات پر عمران خان کھڑا رہا ہے؟خواجہ آصف کا کہنا تھا عمران خان کس حالت میں ہوتا ہے اور کیا کہہ جاتا ہے اسے خود یاد نہیں رہتا، عمران خان نے کل کہا ہے میرے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔
اس آدمی کو یہ پتہ ہی نہیں کہ وہ کہتا کیا ہے، اگر کچھ لوگ اس کی بات پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں تو یہ ان کا معاملہ ہے۔ بہرحال اس بار ملک کے اہم ادارہ کے سربراہ کی تعیناتی کو اتنا متنازعہ بنایاجارہا ہے کہ کسی بھی سینئر آفیسر کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی تو سیاست کی جائے گی اور اس کا آغاز پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کیا ہے جب سے انہیں وزیراعظم کے منصب سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے گھربھیجا گیا ہے۔
وہ بن تولے بولے چلا جا رہا ہے مگروہ اتنے سادہ نہیں کہ نادانی میں بات کررہے ہیں اس سے قبل موصوف موجودہ آرمی چیف کی تعریفوں کے پُل باندھتے نہیں تھکتے تھے اور پاک فوج کی بھرپور حمایت کرتے دکھائی دیتے تھے،موجودہ آرمی چیف کو جمہوریت دوست قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اپوزیشن کو اس طرح کے آفیسر قبول نہیں،مگر کرسی گئی تو سب غیر جمہوری ہوگئے۔ان کی نظرمیں سب سے بہترین، ایماندار، دیانتدار شخص وہ ہے جو اس کی حمایت کرے چاہے وہ کسی ادارے کا سربراہ ہو یا سیاسی شخصیت ہو۔ ماضی میں جن سیاسی شخصیات کے خلاف وہ سخت لہجہ استعمال کرتے دکھائی دیتے تھے ان میں سے ایک اب وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائزہیں جبکہ دوسرے کو وفاقی وزیر کا عہدہ دیا تھا۔ عمران خان کا بنیادی مقصد دوبارہ اقتدار میں آنا ہے خواہ کوئی بھی راستہ ہو۔
جب ان سے ماضی کے متعلق سوالات کئے جاتے ہیں یا پھر فوج کے سیاسی عمل میں مداخلت نہ کرنے کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو سیدھا جواب نہیں دیتے، توڑمروڑ کرجواب کو گھمادیتے ہیں مگر سوال کرنے والااور سننے والے سب پر یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ عمران خان کی خواہش کیا ہے؟