|

وقتِ اشاعت :   November 15 – 2022

یہ مضمون لکھتے وقت، ٹی۔اے۔ہیتھکوٹ کی کتاب: بلو چستان، برٹش اور گریٹ گیم(Balochistan,the British and Great Game.By :T A Heathcote,) سے استفادہ کیاگیا۔
میر محراب خان کی شہادت پر اظہار خیال سے قبل اس وقت کے حالات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے تاکہ شہادت کے پس منظر کوسمجھا جا سکے۔جب برطانیہ نے فارورڈ پالیسی پر عمل کا فیصلہ کیا تو اسکا پہلا نشانہ افغا نستان تھا۔افغانستان میںاس وقت انارکی جیسی کیفیت تھی۔تیمور شاہ کی وفات کے بعداس کے 23 بیٹو ں میںہر ایک باد شاہ بننا چاہتاتھا۔ ایک بادشاہ بنتا دوسرے اسے نکال دیتے۔اس افرا تفری کے ماحول میں ایک بار شاہ شجا ع الملک کو بھی تخت نشینی کا مو قع ملا، پھر جلد اسے نکال دیا گیا۔وہ اپنے ساتھ کوہ نور اور کافی مقدار میں سونا ، چاندی اٹھا کرکابل سے پشاور پہنچا ۔وہاں سے رنجیت سنگھ کے پاس لاہور چلا گیا۔ رنجیت سنگھ نے ۱س سے کوہ نور ٹھگا کرلے لیا اور مدد بھی نہ کی۔

پھرشجاع الملک برطانوی مدد کے لیئے لدھیانہ پہنچا ۔23 جون1838 کو شملہ میں آکلینڈ(Auckland ) نے اعلان کیاکہ ’’رنجیت سنگھ،حکومت ہند اور شاہ شجاع الملک کے مابین ایک معا ہدہ طے پایاجس کی رو سے ان تینوں میں سے کسی ایک کا دوست یا دشمن تینوں کا دوست یا دشمن ہوگا۔‘‘شاہ شجاع الملک بر طا نوی امداد کے بدلے افغا نستان کی خار جہ پالیسی سے اس کے حق میں دست بردار ہو گیا اور پشاور رنجیت سنگھ کو دینے کا اقرار کیا۔افغا نستان پر حملے کے لئے رنجیت سنگھ کی فوجیں اور شاہ شجاع کے مرسنریز (mercenaries )خیبر پاس سے اور انڈس آرمی درہ بولان سے داخل ہونا تھا۔میر محراب خان ایک سچا مسلمان تھا وہ انگریزوں سے نفرت کرتا تھا اس کے ہندوستان کے مسلمان باغیوں ،ڈیرہ غازی خان کے بلوچ حاکموں اوربولان کے بلوچ قبائل سے اندرونی رابطے تھے۔ بر طا نوی قا فلوں پردرہ بولان کے قبائل کے پے در پے حملوں سے انگریز بیزار ہو گئے تھے،ان قبا ئل میں ڈومکی، جھکرانی ،مری اور بگٹی سر فہرست تھے۔خان کوانگریزافسروں اور شاہ شجاع نے ناراضگی کے خطوط لکھے ۔محراب خان کے اپنے دو کارندے وزیر ملا حسن اور کچھی کے نائب سید محمد شریف بھی خان کے خلاف دل میں بغض رکھتے تھے ۔

28 مارچ 1839 کو برنز (Burns ) اور میر محراب خان کے ما بین قلات میں ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے خان کو شکار پور اور کوئٹہ کے ما بین قا فلوں کی حفا ظت اورکوئٹہ جاکر شاہ شجاع کی اطاعت کرنی تھی۔اس کے بدلے خان کو سالانہ ڈیڑھ لاکھ روپے دینے قرار پائے۔برنز کوئٹہ روانہ ہوااس کے پیچھے خان کو بھی جانا تھالیکن خان محراب خان کو ئٹہ نہیں گئے کیو نکہ وہ شاہ شجاع کو پسند نہیںکرتا تھا۔اسکا کہنا تھا شاہ شجاع احسان فراموش آدمی ہے۔جب اس نے میرے پاس پناہ مانگی میں نے اسے پناہ دی اور اسکی خدمت کی، اب وہ میرے خلاف کام کر رہا ہے۔راستے میں برنز کے قافلے پر حملہ ہوا۔ا سکے تین آدمی مارے گئے ۔دوہزار روپے اور معاہدے کی برنز والی کاپی چوری ہوئی۔انگریز سمجھ گئے کہ خان نے اپنا فیصلہ بدلا اور خان کے ایک وزیر سید محمد شریف جو کوئٹہ میں تھے، نے بھی انگریز آ فیسروں کو یہی تاثر دیا۔محراب خان نے اپنے کوئٹہ کے نائب رحیم داد کو برنز پر حملے کی انکوائری کا حکم دیا۔انکوئری کے بعد رحیم داد نے بتایا کہ حملہ سید محمد شریف نے اپنے آدمیوں کے ذریعے کرایا۔خان نے اس انکو ائری پر مزید کاروائی نہیں کی اور نہ برنز کو بتایا۔انگریز آفیسران نے محراب خان کو اپنا سنگدل دشمن (Implacable Enimy ) قرار دیا۔برطا نیہ نے 7 اگست1839 کوبغیر لڑے شاہ شجاع کوکابل کے تخت پر بٹھا یا۔واپسی پر میجر جنرل تھامس ولشیر(Major General Thomas Willshire )کو حکم ملا کہ وہ بمبئی ڈویژن لے کر قلات پر حملہ کرے اور شاہ نواز کو تخت پر بٹھا ئے۔ شاہنواز میر محبت خان کی اولاد سے تھا ۔اور شاہ شجاع اور انگریزوںکے کیمپ میں تھا۔ویلشیر 4 نومبر 1839 کو کوئٹہ سے قلات کے لیئے روانہ ہوا۔ انکی روانگی کاخان کو بھی علم ہوا۔

خان نے مقابلہ کا فیصلہ کیااور سرداروں اور قبائل کو پیغام بھیجا۔کچھ سردار خان سے ناراض تھے۔مشرقی قبائل انگریز قافلوں کے لوٹ مار میں مصروف تھے ، مغربی قبائل میں کچھ بہت دور تھے اور وقت پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔جنرل ویلشیر 11 نومبر کو قلات سے دو دن کی مسافت پر پہنچے۔خان نے اپنے کم سن بیٹے اور وارث محمد حسن کو دروغہ گل محمد کی حفاظت میں نوشکی بھیجا۔اخوند محمد صادق کے ہمراہ جنرل ویلشیر کو پیغام بھیجا کہ ’’میں بات چیت کے لئے خودآؤنگا۔ بات چیت کے نتائج تک آگے نہ بڑھیں ۔اس کے با وجود اگر آپ حملے پر مصر ہیں تو آپ مجھے قلعہ کے داخلی دروازے پر تلوار تھامے پائیں گے۔‘‘ لیکن انگریز فوج آگے بڑھتا رہا۔
محراب خان نے اپنے بھائی اعظم خان کو لسبیلہ بھیج دیا۔خوا تین کومحفوظ جگہوںپر منتقل کیا۔ایک قا صد اپنے بیٹے محمد حسن کے پاس نوشکی بھیجااور ایک مسکٹ بندوق (masket gun )جس پر انکے23 اجداد کے نام سونے سے کندہ تھے، بھی اسکے پاس بھیجا تاکہ ضرورت پڑنے پر شہرادہ اپنی شناخت کرا سکے۔اور شہزادے کو نصیحت کی کہ ’’ انگریز سے جلد اور انکی شرائط پر صلح نہ کر نا۔غدار سرداروں (جو محراب خان کے مخا لفت تھے )پر بھروسہ نہ کرنا۔تمباکو سے پر ہیز کرنا۔تمباکو شراب کی جانب راغب کرتی ہے جو ایک گناہ ہے۔شراب نے تمہارے چچا اعظم خان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔اگر تم نے میری آ خری نصیحت سے رو گردانی کی تو میں قبر سے نکل کر تمہاری سرزنش کرونگا‘‘۔
کئی بڑے ہندو تا جروں نے اخوند محمد صادق کو رشوت کی پیش کش کی کہ کسی طرح محراب خان کو بھاگنے پر راضی کرے تاکہ وہ جنگی نقصان سے محفوظ رہیں۔ 13 نومبر 1839 کو ویلشیر کی فوج قلات سے ایک میل کے فا صلے پرایک بلندی پر پہنچ گئی۔وہاں سے قلات نظر آرہا تھا۔خان کے تو پوں نے گولہ باری شروع کی جوشہر کے شمال میںتین پہاڑی سلسلوں کے قطار کے پیچھے تھیں اور ان کے پیچھے خان کی فو ج نے مورچے سنبھالے بیٹھی تھے۔قلعہ کے آگے چھوٹی پہاڑیوںکے پیچھے بھی خان کی فوج تھی۔ویلشیر نے تینوں پہاڑیوں پر بیک وقت حملے کا فیصلہ کیا۔

اس نے تین بٹا لین کو ایک ایک پہاڑی دی ۔دو اعلیٰ کمپنیوں کوئین کی گرینیڈیئر اور لائیٹ انفینٹری جومیجر جون کی قیادت میںتھیں ،نے شہر کے شمال کے کھیتوں میں مورچے سنبھالے۔ باقی دس کمپنیاں ویلشیر کی قیادت میں ریزرو تھیں۔برطانوی توپوں نے ایک موئثر فا ئرنگ خان کے مورچوں پرکی اور انفنٹری بھی آ گے بڑھنے لگی ۔آر ٹیلری کی موئثر فائرنگ اور سرخ کوٹ والوں( برطانوی سپاہیوں) کی پیش قدمی سے خان کی فو جیں دلبرداشتہ ہوئیں اور شہر کے شمالی گیٹ کی جانب پسپا ہونے لگیں۔ویلشیر نے کوئین رجمنٹ کو حکم دیا کہ گیٹ بند ہونے سے پہلے وہاں پہنچے۔کوئین رجمنٹ گیٹ کی جانب دوڑی، پھر آگے والے ایک سپاہی نے چلا یا کہ گیٹ بند ہے۔ فصیل کے مور چوں سے گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی ، سرخ کوٹ والوں نے نزدیکی کھنڈر میں پناہ لی لیکن پھر بھی گولیوں کے زد میںتھے۔یہاں کوئین کے لیفٹیننٹ تھا مس گراوٹ(Lieutanant Thomae Gravatt )اور8 سرخ کوٹ(برطانوی )والے سپاہی ہلاک ہو گئے اور کئی شدید رخمی ہوئے۔دوسری دو کمپنیاں دوڑ کر گیٹ سے 30 گز کے فا صلے پر پہنچیں۔انکے بھی تین فوجی اور ایک بہشتی مارے گئے۔

پھر ایک انجینئرکیپٹن ایل ایکس زنڈر پیٹ (Captain Alexander Peat ) نے بارود کا تھیلا اٹھاکر گیٹ کے ساتھ دھماکا کیا۔کچھ دیر بعد گیٹ جل کر گر گیا۔
بر طانوی فو جیں قلعہ میں دا خل ہوئیں ،انہیں تنگ گلیوں اورراستوں کا سا منا کرنا پڑا،ہر جگہ تلواروں اور سنگینوں سے لڑائی شروع ہوئی۔قلعہ کے اندر محراب خان نے آ خری لڑائی لڑی۔آ خری لمحے بھی اس کے چندلوگوںنے اسے ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیا لیکن اس نے انکار کیا۔اسے ایک درجن کے قریب گولیاں لگیں لیکن پھر بھی وہ لڑتا رہا۔اورآخر کار گر گیا۔سات سے آٹھ سردار اور کئی لوگ اسکے ساتھ وہیں شہید ہوئے۔خان کی لاش کئی گھنٹے وہیں پڑی رہی۔شام کو ان کی جسد خاکی مسجد لے جائی گئی اور اسلامی رسومات کے بعد دفنادی گئی۔جہاں محراب خان نے آخری لڑائی لڑ ی اس کے چھت پر وزیر ملا حسن،اخوند محمد صادق اور کوئٹہ کے نائب رحیم داد30-40 مسلح آدمیوں کے ساتھ موجود تھے ۔
وہاں تک ایک تنگ راستہ اور سیڑھی کے ذریعے پہنچا جا سکتا تھا۔انگریز فوج کی بار بارکی کوششیں ناکام ہوئیں اسکے کئی سپاہی کام آئے ۔آخر کار جان بخشی کی شرط پر وہ نیچے اترے۔
شام تک برطا نوی فوج نے 2000 قیدی قلعہ سے باہر نکالے اور خان کے 400 سپاہی شہید ہوئے۔برطانوی فوج کا ایک افسر اور 32 سپاہی مارے گئے۔ 8 آفیسر اور 107 سپاہی شدید زخمی ہوئے۔یہ لڑائی غزنی کی لڑائی سے زیادہ شدید تھی۔ برطا نوی پار لیمنٹ نے اس فوج کو شکریہ سے نوازا۔میجر جنرل ویلشیر جا گیر سے نوازا گیا،اور دوسرے آفیسران کوبرطا نوی اور درانی سلطنت کے تمغوں سے نوزا گیا،اور کئی کو ترقی ملی۔اس جنگ میں قلات کے کئی ہندوخان محراب خان کے ساتھ لڑتے لڑتے وطن پر قربان ہو گئے ۔اس جنگ میں خان کے فوج کی تعداد دوہزار تھی اور پانچ تو پیں تھیں۔برطا نوی فوج بشمول دو برطانوی اور مقا می بنگالی فوج کے دوہزار تھی۔اس کے علاوہ دو سکواڈرن اورشاہ شجاع الملک کنٹیجنٹ گھوڑ سوار تھے ہتھیا روں میں 9 انچ کی چار تو پیں ،6 پی ڈی آر ہلکے گن شامل تھے۔
قلعہ میں غلہ کافی مقدار میں ملا، اس کے علاوہ ہندی تلواریں، کشمیری شال، ایرانی قالین اور کچھ اسلحہ ملا ۔ نقدی بہت کم تھی۔خان کی جیو لری وزیر ملا حسن کے گھر سے برآمد ہوئی۔اس جیولری کو بمبئی میں ساٹھ ہزار روپے میں نیلام کیا گیا ۔ وزیر ملا حسن ،اخوند محمد صادق اور نائب کو ئٹہ رحیم داد کو بکھر جیل میں قید کیا گیا۔پھر شاہ نواز کو تخت پر بٹھا یا گیا ۔ ایک بر طانوی آ فیسر لبدے(Lovday ) کو بمعہ 60 سپا ہیوں کے شاہنواز کی مدد اور برطا نوی پا لیسیوں پر عمل درآمد کے لیئے قلات میں سیاسی آ فیسر مقرر کیا ۔شاہنواز سے جو معاہدہ ہوا اسکے مطابق کوئٹہ اور مستونگ کے اضلاع شاہ شجاع الملک کے حوالے کئے گئے اور ہڑند کا قلعہ رنجیت سنگھ کو دیا گیا۔شاہنواز نے شاہ شجاع کی اطاعت قبول کی۔شاہ شجاع کے کارندوں نے ان اضلاع پر ٹیکسز بڑھا دیئے۔جب کا رندے ٹیکس وصولی کے لیئے پہنچے تو بلوچ سرداروں نے ٹیکس دینے سے انکار کیا،اب سرداروں کو معلوم ہوا کہ شاہنواز نے تخت کی خاطر وطن بیچ دی۔شاہنواز اور لبدے محراب خان شہید کے بیٹے میر محمد حسن کو گرفتار کر نے پنجگور پہنچے ۔ انہیں معلوم ہوا محمد حسن خاران میں سردار آزاد خان کے پاس ہیں۔ پھر وہ واپس قلات آئے۔لبدے اپنے آدمیوں کے ساتھ شہزادے کو گرفتار کرنے دوبارہ نوشکی پہنچے لیکن وہ ناکام ہوئے اور واپس قلات آ گئے۔لبدے نے جنوری1840 کو اپنے منشی اور 25 سپا ہیوں کو ٹیکس جمع کرنے مستونگ بھیجا جنہیں سردار محمد خان شاہوانی نے قتل کر دیا۔اب شورش کی ابتدا ہو چکی تھی۔ سردار محمد خان شاہوانی نے ساراوان کے تمام سرداروں کو مزاحمت کی اپیل کی۔ سردار آزاد خان شہزادہ محمد حسن کے ساتھ خاران سے مستونگ پہنچے۔ادھر محراب خان کی بیوہ بی بی گنجان بمعہ اپنے آ دمیوں کے بھی مستونگ پہنچ گئیں۔یہا ں موجود بلوچ قبائل نے شہزادہ محمد حسن کو’’نصیر خان دوئم ‘‘ کا خطاب دیا۔یہاں سے قبا ئل نصیر خان دوئم کی قیادت میں کو ئٹہ پہنچے ۔

قلعہ کا دروازہ بند پاکر واپس مستونگ روانہ ہوئے ۔نصیر خان دوئم 2000 ساراوانی قبائل اور سرداروں کے ساتھ جولائی 1840 کو قلات پہنچا۔تین دن تک قلعہ کا محا صرہ کیا ، چوتھے دن جھالاوان اور ساراوان قبائل کے ما بین ایک معاہدہ ہواجس کے مطابق : نصیر خان دوئم قلات کے حاکم ہونگے ، شاہنواز کو باغبانہ جانے دیا جا ئیگااور اسکے گزر بسر کے لیئے مر کزی جھالاوان کے کچھ علاقے اس کے پاس ہونگے۔لبدے اور ایک بر طا نوی جاسوس میسن کو ( جو سالوں سے بلوچستان ،افغا نستان اور ایران میں کام کر رہا تھا) کو ئٹہ جانا تھا۔ شاہنواز نے نصیر خان کو تا کید کی کہ لبدے ایک آدمی نہیں بلکہ ایک حکومت ہے اور مجھے اپنے داڑھی سے زیادہ عزیز ہے۔نصیر خان دوئم نے جواب دیا آپ فکر نہ کریں مجھے بھی اسی طرح عزیز ہے۔شاہنواز چلا گیا اور نصیر خان دوئم تخت نشین ہوا۔ لبدے اور میسن (Messon ) کے گھر لوٹ لئے گئے ۔میسن کی پندرہ سالہ یادداشتوں کا ریکارڈ بھی ضائع ہوگیا۔دونوں کو قلعہ میں بلا یا گیا، راستے میںپہلے ان پر عورتوں نے تھوکا، پھر مردوں نے پتھر مارے اور قلعہ میں انہیں قید کیا گیا۔میسن کی دروغہ گل محمد کے سامنے پیشی ہوئی۔میسن کے مطابق دروغہ ایک دراز قامت،ایک آنکھ سے اندھا، عمر رسیدہ اور سخت خدو خال کا مالک تھا۔دروغہ کا کہنا تھا اسی کمرے میں بر نز (Burns ) نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قسم کھا ئی اور وعدہ کیا کہ ہمارے آپ کے ملک کے خلاف کوئی برے عزائم نہیں ۔پھر محراب خان نے انکی مدد کی اور آپ لوگوں نے محراب خان کو یہ صلہ دیا۔محراب خان کی لاش کئی گھنٹے بے گورو کفن پڑی رہی۔ آپ لو گوں نے اسے سیدھا بھی نہ کیااور نہ اس پر چادر ڈالی ، لبدے نے میرے سر کی قیمت لگائی تھی اور شہزادے کو ڈھونڈ تارہا ۔ یہ باتیں کرتے وقت دروغہ کے آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ پھرنصیر خان دوئم لبدے اور میسن کو لے کر بات چیت کے لیئے مستونگ پہنچااور بین(Bean ) جو کوئٹہ میں تھا،کو خط لکھا۔جواب میں بین نے لکھا کہ پہلے شہزادہ قلات خالی کرے پھر قندھار جائے، اسے جو حکم ملے اسکی تعمیل کرے۔

خان نے قندھار جانے اور قلات خالی کرنے سے انکار کیا۔ لبدے کی با ربار اسرار پر میسن کو کوئٹہ بھیجا گیا۔بین نے میسن کو روسی جاسوس سمجھ کر قید کیا۔اب کا ہان سے کلی بوران کی مریوں کے ہا تھوں شکست کی خبر یہاں پہنچ گئی تھی ۔نصیر خان واپس قلات آیا۔ میجر جنرل ویلیم نوٹ ایک بھاری فوج کے ساتھ قلات پر حملہ کے لیئے روانہ ہو گیا۔خان نے قلات خالی کی اور چھاپہ مار جنگ کا فیصلہ کیا۔لبدے کو ایک شخص قاسوشاہوانی کے حوالے کیا تاکہ وہ بھاگ نہ جائے۔3 نومبر1840 کوویلیم نوٹ کی فوج قلات میں داخل ہوئی۔خان کی فوج نے کچھی میں برطا نوی کیمپ پر حملہ کیا ، وہاں سے انہیں پسپا کیا گیا۔بھگدڑ میں قاسو نے لبدے کو بھاگنے کے لیئے کہا لیکن لبدے نے جان بوجھ کر سست روی اختیار کی۔مجبوراً قاسو نے اسے قتل کر دیا اوربھاگ کر دوسرے لشکریوںسے جا ملا۔خان کے لشکر نے کو ٹڑا(kotra ) میں کیمپ کیا۔بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا، بلوچ اسے امن کاوقت سمجھ کر بے خوف ہوئے۔اچا نک برطانوی فوج نے یکم دسمبر 1840 صبح سویرے کو ٹرا میں خان کے لشکریوں پر حملہ کیا۔ بلوچ اس اچا نک حملے کے لیئے بالکل تیار نہ تھے۔جس وقت حملہ ہواخان کا ایلچی بات چیت کے لیئے برطانوی کیمپ میں موجودتھا۔خان نصیر خان دوئم دو سا تھیوں کے ہمراہ پہاڑوں میں روپوش ہوگئے۔

اس اچانک حملے سے چار سردار 500 قبا ئلیوں کے ساتھ شہید ہوئے۔ آ ٹھ چیف اور 132 بلوچ زخمی ہوئے۔تقریباً 3000 پہاڑوں میں روپوش ہوئے۔بیل (Bell ) نے پھر بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ۔روابط بحال کر نے کے لیئے سٹیسی (Stacey ) نے اپنے آپ کو پیش کیا۔سٹیسی ایک ماہ تک مذاکرات میں مصروف رہا، آخر کار مذا کرات کا میاب ہو گئے۔جولائی 1841 کو نصیر خان دوئم قلات داخل ہوا اور بر طانوی فوج نے اسے سلامی دی۔16 اکتوبر 1841 کو نئے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ کو ئٹہ ،مستونگ اور کچھی خان کو وا پس مل گئے۔اور خارجہ امور میں خان شاہ شجاع کے ماتحت ہوگااورہمسا یہ ملکوں کے ساتھ روابط قائم کر سکے گا۔لبدے کا قاتل قاسو شاہوانی بر طا نوی حا کموںکے حوالے کرنا پڑا اور اسے پھانسی دی گئی۔اس اچانک حملے کے بعد بلو چو ںمیں انگریز دھوکے باز مشہور ہوا۔