بلوچستان میں علم وادب ،سیاست کی پہچان مکران ڈویژن کے تعلیمی ادارے ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر آگئے ہیں۔ گزشتہ روز تمپ میںشرپسند عناصر کی جانب سے ایک اسکول کو نذر آتش کردیا گیا جبکہ گزشتہ ماہ بلیدہ میں اسی طرح ایک اسکول کو جلایا گیا تھا۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مکران میں ایک بار پھر خوف کی فضاء پیدا کی جارہی ہے خاص کر تعلیمی اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے ان واقعات سے لازماََ طالبعلموں، اساتذہ، محکمہ تعلیم کے ذمہ داران سمیت والدین ذہنی کوفت میں مبتلاہونگے کیونکہ شرپسندعناصر جس طرح سے اسکولوںکو آگ لگاکر تباہ کررہے ہیں، کل کو خدانخواستہ کوئی بڑا واقعہ رونما نہ ہوجائے۔ اس معاملے پر اب تک مکران کے اسٹیک ہولڈرز، سیاسی جماعتوں کی خاموشی المیہ ہے ۔
موجودہ مسئلے کو بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اٹھایا ہے اور شدیدتحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اپنے بیان میں واضح طورپر کہا ہے کہ ایک منصوبہ بندی اور سازش کے تحت تعلیمی اداروں کو تباہ کیاجارہا ہے تاکہ تعلیم حاصل کا رجحان ختم ہوجائے اور نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اگر اس پر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا تو شرپسند عناصر اس طرح کی مزیدکارروائیاں کرینگے ۔ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ملوث ملزمان کی کھوج لگائی جائے اورانہیں کیفر کردار تک پہنچایاجائے تاکہ مکران میں موجودہ خوف کی فضاء ختم ہوجائے اور تعلیمی سرگرمیاں بلاخوف وخطر جاری رہیں۔ اس سے قبل یاددہانی ضروری ہے کہ 2014ء سے لیکر 2017ء تک مکران کے مختلف علاقوں میں کالجز، اسکولز کے اندر پمفلٹ پھینکے گئے،
انہیں تالے لگائے گئے ، ان پمفلٹس کے اندرباقاعدہ دھمکی آمیز پیغامات تھے کہ اگر کسی نے بھی تعلیمی اداروں کوکھولنے کی کوشش کی تو تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔ اس پر آفرین ہے مکران سمیت بلوچستان کے پڑھے لکھے طبقے نوجوانوں کو جنہوں نے بلاخوف وخطراپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ہر فورم پر آواز بلند کی اور تعلیمی اداروں کو کھولنے کے حوالے سے حکومت پر دباؤ ڈالا اور سماج دشمن عناصر کے خلاف فوری کارروائی کامطالبہ کیا ۔ کوئٹہ پریس کلب میں ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی جس میںاس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے بھی شرکت کی تھی۔ مقررین نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو براہ راست اس مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے زور دیا اور اس کے بعد اس کے اچھے اثرات پڑنے شروع ہوئے ۔
بہرحال ایک بار پھر مکران جیسے علم سے زرخیز خطے کو علم کی روشنی سے دور کرنے کی سازش رچائی جارہی ہے، اس کے مرکزی کردار جو بھی ہوں ،مافیاز ہو ں،شدت پسند یا کوئی اور ان کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ نوجوان طبقہ اپنے علم کو جاری رکھ سکے۔ امید ہے کہ بلوچستان حکومت اس اہم مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ لے گی اور تمام سیاسی جماعتوں، اسٹیک ہولڈرز کو آن بارڈ لیتے ہوئے اس معاملے کی طے تک پہنچے گی، تحقیقات کرکے ملوث عناصر کو کڑی سزا دی جائے گی تاکہ وہ دوبارہ اس طرح کے عمل کو دہرانے کے قابل نہ رہیں۔