|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2022

پاکستان کوہمیشہ سے چیلنجز کا سامنا رہا ہے اوریہ کبھی معاشی تو کبھی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے رہا ہے۔ انہی حالات کی وجہ سے پاکستان ترقی کی رفتار میں پیچھے رہا ،معاشی صورتحال انتہائی ابتر رہی ،دوسری جانب دہشتگردی کا سامنا کرناپڑا، ملک کے اندر موجود سیاسی مسائل بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہیں کہ انہیں وفاقی حکومتوں کو حل کرنا چاہئے تھا ۔

اور اس پر اپنا ایک باقاعدہ کردار ادا کرتے مگر بدقسمتی سے مصلحت پسندی اور سیاسی مفادات کی وجہ سے انہیں یہ زحمت نہیں ہوئی کہ گروہی وذاتی رنجش ومفادات سے بالاتر ہوکر ملک کے اندر موجود سیاسی مسائل کو حل کرتے ۔

بہرحال ایک طویل فہرست ہے کہ ان سیاسی مسائل نے صوبوں کے درمیان خلیج پیدا کی، مشرقی پاکستان اور بلوچستان کے مسائل نے سراٹھایا،گلے شکوے دور ہوسکتے تھے مگر سیاسی قیادت کمزور تھی یاخود اپنی مصلحت پسندی اور مفادات کے شکنجے میں پھنسی رہی کہ انہوں نے سنجیدہ سیاسی مسائل پر عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس کے نتائج بہت ہی خطرناک برآمد ہوئے۔

بہرحال آج بھی موقع ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ملک کے اندر موجود سیاسی معاملات کوخود سیاسی جماعتیں حل کریں۔گزشتہ روز جی ایچ کیو میں یوم دفاع و شہدا کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بناکر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی اور ابھی اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جارہی ہے، سول ملٹری لیڈرشپ کو غیر مناسب القابات سے پکارا گیا، میں آپ کو واضح کردینا چاہتا ہوں فوج کی قیادت کچھ بھی کرسکتی ہے لیکن کبھی بھی ملک کے مفاد کے خلاف نہیں جاسکتی ۔بیرونی سازش کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باوجوہ نے کہا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک بیرونی سازش ہو اور آرمڈ فورسز ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہیں گی؟ یہ ناممکن ہے بلکہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فوج اور عوام میں دراڑ ڈال دیں گے وہ بھی ہمیشہ ناکام ہوں گے۔ فوج کی قیادت کے پاس اس نامناسب یلغار کا جواب دینے کیلئے بہت سے مواقع اور وسائل موجود تھے لیکن فوج نے ملک کے وسیع تر مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا اور کوئی بھی منفی بیان دینے سے اجتناب کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس صبر کی بھی ایک حد ہے۔

میں اپنے اور فوج کیخلاف اس نامناسب اور جارحانہ رویے کو درگزر کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں کیوں کہ پاکستان ہم سب سے افضل ہے، افراد اور پارٹیاں تو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان نے انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہنا ہے۔آرمی چیف جنرل قمرجاوید باوجوہ نے تقریب کے دوران کہامیں یہاں پرکچھ حقائق درست کرنا چاہتا ہوں۔سب سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں بلکہ ایک سیاسی ناکامی تھی۔ لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی، باقی لوگ مختلف گورنمنٹس کے ڈپارٹمنٹس کے تھے اور ان 34 ہزار لوگوں کا مقابلہ ڈھائی لاکھ انڈین آرمی، دو لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا لیکن اس کے باوجود ہماری فوج بہت بہادری سے لڑی اور بے مثال قربانیاں پیش کیں جس کا اعتراف خود سابق بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانیکشا نے بھی کیا۔ان بہادر غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کا آج تک قوم نے اعتراف نہیں کیا جو کہ ایک بہت بڑی زیادتی ہے۔

بہرحال آرمی چیف نے موجودہ سیاسی صورتحال پر ایک تو واضح بیان دیا کہ سازشی بیانیہ جس پر گزشتہ کئی ماہ سے سیاست پی ٹی آئی کی جانب سے کی جارہی ہے اس پر دوٹوک بات کی اب مزید پی ٹی آئی اس پر سیاست کرنے سے گریز کرے۔ ویسے بھی عمران خان امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کے سازش کے جھوٹے بیانیہ سے مکرچکے ہیں اب مزید سیاسی انتشار پیدا کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں سے مل کر مستقبل کے حوالے سے جمہوریت کو مضبوط کر نے میں کردار ادا کریں، یہ ایک موقع سیاسی جماعتوں کے پاس موجود ہے کہ پارلیمان کی بالادستی کے لیے یکجاہوکر کام کریں تاکہ پاکستان کو درپیش اندرونی وبیرونی چیلنجز اور مشکلات سے نجات مل سکے۔