پی ٹی آئی گزشتہ 8 ماہ سے مسلسل ریڈ لائن کراس کرتے ہوئے اداروں پر حملہ آور ہوتا رہا ہے مگر اب پی ٹی آئی نئی حکمت عملی اپناتے ہوئے اداروں پر براہ راست تنقید سے گریز کرتے ہوئے سابق آرمی چیف (ر) جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہدف بنا کر ادارے کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر جارہی ہے ۔
جس کی ایک جھلک گزشتہ دنوں پنجاب حکومت کی ترجمان کی جانب سے سابق آرمی چیف (ر) جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید ہے جس پر پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا کیونکہ یہ ان کی اب باقاعدہ پالیسی کا حصہ ہے ۔
جس کا بنیادی مقصد لانگ مارچ کی ناکامی اور جھوٹے انقلابی بیانیہ کو عوام کے اندر زندہ رکھتے ہوئے خود کو سبکی سے بچانا اور الیکشن مہم کا حصہ بنانا ہے مگر اس پر وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی جانب سے ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ کو شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا ہے جو پی ٹی آئی کے مقامی رہنما ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اور عمران خان کے درمیان سیاسی بیانیہ میں فرق ہے جس میں آنے والے دنوں میں دوریاں بھی پیدا ہونگی، اس کی ایک جھلک شوکاز نوٹس اور دوسرا مونس الٰہی کا ردعمل ہے۔ مسلم لیگ ق کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے صاحبزادے مونس الہٰی نے بھی پی ٹی آئی کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید کے معاملے میں کھل کر اختلاف کا اظہار کیا۔
مونس الہٰی نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ جنرل باجوہ کے خلاف موجودہ مہم غلط ہے، جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا بلکہ انہوں نے تو تحریک عدم اعتماد کے وقت بھی مجھ سے کہا کہ عمران خان کے ساتھ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنرل باجوہ عدم اعتماد کا حصہ ہوتے تو ہمیں کیوں اس طرف جانے کا کہتے، جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کے لیے سب کچھ کیا اور اب جب وہ چلے گئے ہیں تو پی ٹی آئی والے ان کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، ان کے خلاف ٹرینڈ چلا رہے ہیں، یہ اچھی بات نہیں ہے، جنرل باجوہ نے تو دریاؤں کا رْخ موڑ دیا تھا۔
اس کے علاوہ مونس الٰہی کا کہنا تھا کہ عدالتیں غیر جانبدار ہیں، پنجاب حکومت کے معاملات میں بھی اسٹیبلشمنٹ کوئی مداخلت نہیں کر رہی،نہ ہی عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی ہے، ہم نے پی ٹی آئی سے یہ تک کہا کہ ایف آئی آر کاٹنے کے لیے کوئی بھی اپنا پولیس والا دے دیں جو ایف آئی آر کاٹ لے تو انہوں نے ایسا پولیس والا دیا ہی نہیں۔ ق لیگ کے واضح سیاسی موقف اور عمل سے یہ پیغام لیا جاسکتا ہے کہ مزید اس ٹرینڈ کو چلایا گیا تو راستے الگ ہو جائیں گے ۔
اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل پر پی ٹی آئی کو منہ کے بل گرنا پڑے گا کیونکہ پرویز الٰہی کو کوئی بھی سیاسی نقصان نہیں ہوگا پی ڈی ایم قیادت کی جانب سے پرویز الٰہی کے متعلق نرم گوشہ اشارہ ہے کہ مستقبل میں اسے ساتھ لیکر چل سکتے ہیں۔ اب سابق صدر مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری بھی میدان میں خود آگئے ہیں پنجاب اور کے پی کے میں بیک ڈور رابطے بھی تیز ہونگے بہرحال پی ٹی آئی کا سیاسی خسارہ سیاسی منظر نامے پر دکھائی دے رہا ہے آئندہ چند روز کے اندر بہت سی تبدیلیوں کے امکانات بھی دکھائی دے رہے ہیں جو ملکی سیاسی منظر نامے کو بدل دیں گے۔