تہران: ایران میں زیرحراست لڑکی کی موت کیخلاف مظاہرے جاری ہیں، ایرانی مظاہرین نے(آج)پیر سے تین روزہ معاشی ہڑتال کی کال دیدی ہے، مظاہرین نے بدھ کو تہران کے آزادی اسکوائر پر ریلی نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ایرانی مظاہرین نے ہڑتال اور ریلی کی کال سوشل میڈیا پر دی ہے۔ دوسری جانب بدھ کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا تہران یونیورسٹی میں یوم طلبا پر خطاب بھی ہوگا۔ ایرانی انسانی حقوق گروپ کے مطابق سکیورٹی فورسز کے کریک ڈائون میں64بچوں سمیت 470مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ18ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ ستمبر کے وسط میں حجاب قانون کی خلاف ورزی پر گرفتار22سالہ مہسا امینی پولیس کی حراست میں مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھی جس کے بعد سے ایران میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
دریں اثناء ایرانی حکومت نے ملک میں حجاب کی پابندی کیلئے بنائی اخلاقی پولیس کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے اٹارنی جنرل محمد جعفر المنتظری نے کہا ہے کہ ملک میں اخلاقی پولیس کی کارروائیاں معطل کر دی گئی ہیں۔ یہ بات انہوں نے ایک تقریب سے خطاب میں کہی۔ تقریب میں حالیہ مظاہروں کے دوران ہائبرڈ جنگ کے بارے میں بتایا گیا۔ایران کے خبر رساں ادارے کے مطابق اٹارنی جنرل محمد جعفر المنتظری نے کہاکہ اخلاقی پولیس کا عدلیہ کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے اسی جگہ روک دیا گیا جہاں سے ماضی میں اس کا آغاز ہوا تھا۔ وہ مبینہ طور پر اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ اخلاقی پولیس کو کیوں ختم کیا گیا۔کوئی دوسری تصدیق نہیں ہوئی کہ گشت کرنیوالی پولیس کے یونٹ جنہیں سرکاری طور پر معاشرے میں اخلاقی سلامتی کی ذمہ داری دی گئی ہے، انہیں ختم کر دیا گیا ہے، نہ ہی منتظری نے یہ بتایا کہ اخلاقی پولیس کو غیر معینہ مدت کیلئے ختم کر دیا گیا ہے۔اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ قانون جس کے تحت خواتین کیلئے مخصوص لباس زیب تن کرنا لازمی ہے، اسے ختم کر دیا جائے گا۔ایران کی اخلاقی پولیس، جسے رسمی طور پر گشت ارشاد یا رہنما پیٹرول کے نام سے جانا جاتا ہے، سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں قائم کی گئی تھی اور اس کا مقصد حیا اور پردے کے کلچر کو فروغ دینا تھا جس کے تحت خواتین کیلئے سر ڈھانپا لازمی ہے۔ایران میں مظاہروں کا سلسلہ ملک میں خواتین کے لیے لباس کے سخت ضوابط کی مبینہ خلاف ورزی پر اخلاقی پولیس کی جانب سے گرفتار کی گئی ،مہسا امینی نامی خاتون کی 6 ستمبر کو دوران حراست موت کے بعد شروع ہوا تھا۔ جس میں رپورٹس کے مطابق 400 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔