|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2022

ملک میں سیاست کس سمت جائے گی سب کی نظریں اسی پر لگی ہوئی ہیں جس طرح سے ق لیگ کے اہم رہنماؤں وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہٰی اور ان کے صاحبزادے مونس الہٰی نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں پنجاب میں پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کہا تھا اور یہ کہ ان سے مسلسل رابطے جاری تھے۔

اس بیان سے یہی نتیجہ اخذکیاجاسکتا ہے کہ مونس الہیٰ کے بعد پرویزالہٰی کا سابق آرمی چیف کے دفاع میں آکر بات کرنے کا مقصد پی ٹی آئی کو پیغام دینا ہے کہ سابق آرمی چیف کے خلاف محاذ بند کیاجائے حالانکہ سابق آرمی چیف قمرجاوید باجوہ کی جانب سے اس کی وضاحت آنی چاہئے اور بتانا چاہئے مگر اب تک کوئی ایسا مؤقف یا بیان سامنے نہیں آیاہے۔

بیان دینا اس لیے ضروری ہے کیونکہ سابق آرمی چیف نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ اب ہم نیوٹرل ہوچکے ہیں،ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا اور سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ وہ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔مگر حالیہ پنڈورا بکس جو چوہدری برادران کی جانب سے کھولاگیا ہے اس کی وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ پاک فوج کی سیاست میں مداخلت ختم ہونے کے بیانیہ پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور اس سے پاک فوج کی ساکھ متاثر ہوگی۔ بہرحال سابق آرمی چیف تو چلے گئے ہیں ۔

مگرجو ماضی کے سیاسی مداخلت کے نقوش چھوڑ کر گئے ہیں اب یہ موضوع بحث بنیں گے کہ کس طرح سے ایک طرف وفاق میں عدم اعتماد کی تحریک تو دوسری جانب پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کا تختہ الٹ کر دوبارہ ق لیگ کے ذریعے پنجاب کو پی ٹی آئی کے حوالے کرنے کا اہتمام کیا گیا،اس کے ساتھ وہ فیصلے بھی جڑے ہوئے ہیں جب اعلیٰ عدلیہ نے اراکین کو ڈی سیٹ کیا تھا۔ اس طرح کے بہت سارے سوالات وفاق میں موجود سیاسی جماعتوں کے اوپر بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ انہیں وفاق کس طرح ہاتھ میں دیا گیا،کیا عدم اعتماد کی تحریک میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت موجود نہیں تھی،صرف عمران خان کو ہی فارغ کرنا مقصود تھا اب یہ سیاسی جماعتوں کو بھی جواب دینا ہوگا۔وفاقی نمائندگان تو چوہدری برادران کے بیانات کو جھوٹ پر مبنی قرار دے رہے ہیں مگر جس کا نام براہ راست آرہا ہے جواب اسی طرف سے آنا ضروری ہے تاکہ سب کچھ واضح ہوجائے کہ ملک میں سیاسی تبدیلیوں کی وجوہات کیا تھیں۔

ملک گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی عدم استحکام کاشکار ہے جس کی وجہ سے معیشت بھی بری طرح متاثر ہے اس کی بنیادی وجہ کمزور پارلیمانی نظام ہے اگر سیاستدان خود کھیل کا حصہ بن کر پارلیمانی نظام کو تماشا بنائینگے تو سیاسی حالات کبھی تبدیل نہیں ہونگے۔فیصلہ خود سیاسی جماعتوں کو ہی کرنا ہوگا کہ انہیں کس طرح سے اپنی حکومت بنانی ہے جس میں عوام کی طاقت کا عنصر زیادہ ہو یا نہ ہو؟ بہرحال ملکی ادارے آئین کے حدود میں رہ کر کام کرینگے تو ملک میں سیاسی استحکام اور ایک بہترین جمہوری نظام آسکتا ہے۔ البتہ موجودہ سیاسی ہلچل نے بہت سارے سوالات کھڑے کردیئے ہیں ان کے جوابات حل طلب ہیں۔