|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2022

کوئٹہ:  جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے لیکن یہاں مسائل کے انبار اور وسائل کا فقدان ہے ،صوبے کے عوام کو اپنے وسائل پراختیار حاصل نہیں ہے ہمیں اپنی حکومت بنانے کے لئے محنت کرنی پڑیگی، بیرونی قوتیں ہم پر اپنی مرضی کی حکومتیں مسلط،اختیار پر قبضہ ، پارلیمنٹ سمیت دیگر معاملات میں مداخلت کرتی ہیںہمیں انکا راستہ روکنا ہوگا،امریکہ ،یورپ سمیت پوری دنیا سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں مگر غلامی قبول نہیں ۔یہ بات انہوں نے بدھ کو سراوان ہائوس کوئٹہ میں چیف آف سراوان سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کے موقع پر منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری ،وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع ،صوبائی جنرل سیکرٹری رکن قومی اسمبلی آغا محمود شاہ، سینیٹر کامران مرتضی ایڈوکیٹ، اراکین قومی اسمبلی مولانا صلاح الدین ایوبی ، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما خالد سومرو،عین اللہ شمس،عثما ن بادینی، یحیٰ خان ناصر، حافظ خلیل احمد سارنگزئی ، ارکان صوبائی اسمبلی اصغر علی ترین، حاجی نواز کاکڑ، عبدالواحد صدیقی، سید عزیز اللہ آغا، جمعیت علماء اسلام ضلع کوئٹہ کے امیر مولانا عبدالرحمن رفیق سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سراوان ہائوس پہلی بار نہیں آرہا اس سے قبل بھی کئی بار سراوان ہائوس آچکا ہوں ہمارے یہ خواہش تھی کہ نواب اسلم رئیسانی کسی نہ کسی طرح جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کریں آج ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں ۔انہون نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام میں جب بھی معززین آتے ہیں ہم انہیں وہی عزت دیتے ہیں جو انہیں انکی سابقہ جماعت، علاقے ، قبیلہ دیتاہے ہم جمعیت میں شامل ہونے والو ں کی عزت، مقام کو برقرار رکھیں گے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے یہاں مسائل کے انبار اور وسائل کچھ نہیں ہیں اگر وسائل ہیں بھی تو صوبے کا عوام کا ان پر اختیار نہیں ہے جو لوگ جمعیت علماء اسلام کا منشور صوبائی خود مختاری اور حقوق کی علم برداری ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم عوام کو انکے وسائل کا املک سمجھتے ہیں

اور وسائل پر انکے اختیار کی بات کرتے ہیں ہمیں محنت کرنی پڑیگی تاکہ ہم یہاں اپنی حکومت بنائیں اور جو حکومتیں باہر سے مسلط کی جاتی ہیں اور جس طرح عالمی قوتیں ہمارے اختیار پر قبضہ کرتی ہیں ہمارے معاملات میں مداخلت کرتی ہیں پارلیمنٹ اور حکومتیں اپنی مرضی کے مطابق بناتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے پر پاکستان اور بلوچستان کے مفاد پر اگر نواب اسلم رئیسانی نے موقف اختیار کیا اور لڑے تو باہر کی قوتوں اور ہمارے وفاداروں نے متحد ہو کر انکی حکومت ختم کردی ہمیں پاکستان کو اس چیز سے نجات دلانی ہے یہ کام آسان نہیں ہے ہمارا راستہ اور جدوجہد کا رخ جمہوری ، پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی خودمختاری ، داخلی اختیار کے حوالے سے امریکہ، یورپ کو کہنا چاہتے ہیں کہ دوستی کرنی ہے تو ہم تیار ہیں لیکن آقا اور غلام کے تعلق سے انکا ر رکرتے ہیں ہم کسی کی غلامی قبول نہیں کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے زعماء کی رہنمائی سے آنے والا سفر آسان ہوگا اور منزل آسانی ہوگی ہم خوشحالی اور آزادی کے دور کی جانب بڑھیں گے ۔انہوں نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت پرنواب اسلم رئیسانی کو انکے ساتھیوں سمیت شمولیت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواب اسلم رئیسانی کا پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ تاریخی اور عظیم الشان ہے ۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم خان رئیسانی نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علماء اسلام ؎ میں 8سے 9ماہ قبل شمولیت کا ارادہ کیا لیکن ذاتی مصروفیات کے باعث یہ عمل تاخیر کا شکار رہا ۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں نے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور غلط فہمیاں ہوئیں بھی جب میں نے 2008میں حکومت سنبھالی تو بم دھماکوں، اغواء سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا تھا اس وقت جمعیت علماء اسلام نے میرا بھر پور ساتھ دیا اس قربت اور سیاسی انداز کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام میں شامل ہونے میں آسانی ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے جو دوست آج پارٹی میںشامل ہورہے ہیں ہمیں مضبوط سیاسی پلیٹ فارم سے جدوجہد تیز کرنی ہوگی اسلام کے اصولوں کے تحت عوام کی بہتری اور فلاح کے لئے جدوجہد کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اور آپ اکھٹے ہوکر ایک دوسرے کی سوچ و فکر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے 75سالوں میں سیاسی قائدین اور عروام نے محرومیوں کا اظہار کیا ہے اب ہم نے دوستوں کی مشاورت سے اس سیاسی پلیٹ فارم میں شمولیت کا اعلان کیا ہے ہم مضبوط سوچ اور قیادت کے ساتھ عوام کے مسائل کوکم سے کم تر کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ پارٹی قائدین سے ملتے رہیں گے اور بات چیت کرتے ہیں گے اللہ ہمیں ثابت قدم رکھے اور فیڈریشن کو مضبوط بنائے، انہوں نے کہاکہ ریاست پاکستان کی اقوام کو حقوق ملنے چاہیے اس حوالے سے ہماری جدوجہد تیز سے تیز تر ہوگی ۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ماضی میں جمعیت علماء اسلام صرف علماء کی جماعت تھی اس پر عوام کی توجہ نہیں تھی مولانا فضل الرحم نے گزشتہ 10سالوں میں جہد مسلسل کے ذریعے جماعت کو عوام کی مقبول جماعت بنایا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں ، ایجنٹوں ، یہہود و کفری طاقت کی مسلط کردہ قوتوں اور نمائندوں للکارا اور انہیںپسپا ہونے پر مجبور کیا ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان بوکھلاہٹ کا شکار ہے اسکا دماغ کام نہیں کر رہا اسے دماغ کے کے ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت ہے وہ صبح اور شام الگ الگ بیانیہ دیتے ہیں اور کچھ پی لیں تو بیانیہ مزید تبدیل ہوجاتا ہے عمران خان کے ذریعے ملک تباہ ، معشیت زمین بوس اور ملک کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی مہنگائی ،معاشی بدحالی سمیت دیگر مسائل عمران خان کے پیدا کردہ ہیں انہوں نے مسلسل جھوٹ بول کر حکومت کی کیاحکومت ایسے ہی چلتی ہے انہوں نے تین سال اقتدار میں ڈرامے کئے ہیں ۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر و وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع اور صوبائی جنرل سیکرٹری رکن قومی اسمبلی آغا محمود شاہ نے کہا کہ نواب اسلم رئیسانی کی جمعیت علماء اسلام میں شمولیت بڑی پیش رفت ہے ۔انہوں نے کاہ کہ نواب اسلم رئیسانی سے انکی وزرات اعلیٰ کے دور میں بھی اچھے تعلقات رہے بلوچستان کے عوام کو انکے حقوق ، این ایف سی ایوارڈ، ریکوڈک ، گوادر سمیت دیگر معاملات پر جمعیت علماء اسلام اور نواب اسلم رئیسانی کابیانیہ ایک ہی رہا ہے انہوں نے ہمیں سینیٹ میں ووٹ بھی دیا ہمارے اصولی موقف کی بناء پر گزشتہ 10سال سے ہم دونوں زیر عتاب رہے ہیں آج جمعیت علماء اسلام میں لوگ جوق در جوق شمولیت کر رہے ہیں بلوچستان پہلے بھی جمعیت علماء اسلام کا قلعہ تھا اور اب صوبے میں جماعت مزید مضبوط ہوگی۔دریں اثناء جمعیت علماء اسلام کے امیر و پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ الیکشن ایک سال مزید آگے بڑھانے کا سوچ رہے ہیں، ملک کو ٹھیک کرنے کیلئے وقت درکار ہے ، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ہم نے بچا یا،ہمارے دور میں ہی ملک گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آیا پشاور میوزیم کے نوادرات کس نے بیچے ہیں۔

توشہ خانہ کے بعد پشاورکے نودارات کا اسکینڈل بھی آرہا ہے عمران خان پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری عنصر ہیں ، ان کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار فوج کے ادارے میں تفریق پیدا اور معیشت تباہی کے دلدل میں پھنس گئی ، امریکی سازش کا سائفر لہرا کر عوام کی ہمدردی حاصل کرنے والے آج اپنے اس بیانیے سے بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں ، عمران خان تقاریر کرکے اداروں اور لوگوں کو بلیک میل کرتا اور ان سے بات کرنا چاہتا ہے وہ ہر لمحہ وہ اپنا موقف تبدیل کرتا ہے ایسے لوگوں کو تو سیاسی جماعتیں رہنما تو درکنار رکن نہیں رکھتیں ، موجودہ حکومت معیشت کو ترجیح دے رہی ہے الیکشن بروقت نہیں بلکہ ااگے بڑھنے چاہیں ملک ٹھیک کرنے کیلئے وقت چاہیے ،توشہ خانہ کے بعد پشاور میوزیم کے نودارات کا اسکینڈل بھی آرہا ہے ،بلوچستان میں آئندہ انتخابات کے بعد ہمارا کردار عوام کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔یہ بات انہوں نے بدھ کو سراوان ہاؤس کوئٹہ میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ، اس موقع پرسابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری ، صوبائی امیر وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع ودیگر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بلوچستان میں تبدیلی کے حوالے سے مجھ سے نہیں بلکہ صوبائی پارلیمانی پارٹی سے پوچھا جائے صوبے میں صوبائی جماعت کے مشورے سے فیصلے کیے جاتے ہیں آئندہ عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں ہمارا کوئی بھی فیصلہ عوامی رائے کو مدنظر کر رکھ کر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ملک دیوالیہ اور بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے کنارے پر تھا اب ہم گرے سے وائٹ لسٹ میں آگئے ہیں اس کے باوجود آئی ایم ایف ہمارے قرضوں کی قسط کا اجراء نہیں کررہا ہے جو خلاف قانون ہے ہم پر قدغن لگا کر مشکل میں ڈالا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اقتدار سنبھالا تو اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان نے ساڑھے تین سال میں ملک کو مشکلات کے دلدل میں اس قدر دھکیل دیا ہے کہ ہم اس سے نکلنے کی کوشش کریں تو اس میں مزید دھنس رہے تھے ملک و معیشت بچانے کے لئے طویل المدتی منصوبوں کی ضرورت ہے پڑھے لوگ بھی زبانی گفتگو میں بہک رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے گزشتہ چند دنوں میں اپنی کئی ایک ناکامیوں کا اعتراف کیا ۔

وہ کہتے ہیں کہ دوسری سیاسی قیادت چور ہے انکے حامی بھی بغیر علم ، عقل اور حکمت عملی کے اس بات کو مان لیتے لیکن پنکی اور گوگی کو چور نہیں مانتے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کبھی جنرل باوجوہ کو سپہ سالار کہا تو کبھی الزامات لگائے ایسا شخص جس کا اپنا کوئی موقف نہیں ہے ہر لمحہ وہ اپنا موقف تبدیل کرتا ہے ایسے لوگوں کو تو سیاسی جماعتیں رہنما تو درکنار رکن نہیں رکھتیں ، گالیاں دینا ، کردار کشی کرنا عمران خان کا شیوہ ہے انہوں نے ہماری تہذیب کو تباہ ، اخلاقی معیار کو زمین بوس اور نوجوانوں کو بے راہ روی کی جانب گامزن کردیا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پی این اے کی تحریک میں بھی مذاکرات ہوئے تھے لیکن غیر سیاسی اور تخریب کار ذہنیت سے مذاکرات ممکن نہیں ، تاریخ میں پہلی بار فوج میں تقسیم پیدا کی گئی عمران خان جیسے لوگ پاکستان کی سیاست کا غیر ضرورری عنصر ہیں ان کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے پہلے جو امریکی سازشی سائفر کا کاغذ لہرا لہرا کر سازش کا کہتا تھا اب رفتہ رفتہ اس کاغذ کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس پر بات نہ کرو عمران خان تقاریر کرکے اداروں اور لوگوں کو بلیک میل کرتا اور ان سے بات کرنا چاہتا ہے عمران خان اب ہمیں دھمکی دے رہے ہیں کہ 16دسمبر تک اسمبلی تحلیل کردو انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ 16 دسمبر پہلے بھی ایک نیازی کے لئے بھاری رہا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت معیشت کو ترجیح دے رہی ہے الیکشن بروقت نہیں بلکہ آگے بڑھنے چاہیں ملک ٹھیک کرنے کیلئے وقت چاہیے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کی خارجہ پالیسی بہتری کی جانب گامزن ہے خارجہ پالیسی داخلہ مفاد کے ساتھ منسلک ہے ہماری اسلامی اور مشرقی تہذیب ہے جس کا احترام پوری دنیا کو کرنا چاہیے مغرب ہم پر اپنے اقدار تھونپنے کی بجائے ہمارے اقدار کا احترام کرے ہم شدت پسندی نہیں دلیل کی بنیاد پر دنیا کو قائل کریں گے ہماری سوچ واضح ہے کہ ہم پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں زلزلہ ،سیلاب یا کوئی بھی دوسری آفت ہو مذہبی سیاسی جماعتیں ہمیشہ فرنٹ لائن پر ہوتی ہیں موم بتی مافیاء کسی بھی چیز کی دلیل نہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان پاکستان کے حمایتی نہیں انہوں نے یہودیوں ، بھارت ، امریکہ ، یورپ سے فنڈنگ لی توشہ خانہ کے بعد اب پشاور کے عجائب گھر کے نوادرات کس نے بیچے ہیں یہ بھی سامنے آنے والا ہے لاہور ہائیکورٹ نے گستاخانہ مواد کو جرم قرار دیا عمران خان کی حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل میں گئی جسے موجودہ وفاقی حکومت نے واپس لے لیا ، سود کے خلاف فیصلے پر بھی اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک نے اپیلیں واپس لے لی ہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم پوری دنیا کے ساتھ دوستی کا تعلق چاہتے ہیں لیکن یہ تعلق غلامی نہیں برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے امریکہ نے ہمیں انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے امریکہ بتائے کہ وہ کون سے انسانی حقوق کی بات کرتا ہے افغانستان میں 20 سال تک جو کچھ کیا گیا ، گواتنا موبے ، بگرام جیل ، ابو غریب جیل میں جو کچھ ہوتا تھا کیا وہ انسانیت تھی ، جس کے اپنے ہاتھ خون سے لت پت ہیں اسے کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں کو انسانی حقوق کا درس دے ہمیں انسانی حقوق نہیں بلکہ اسکی تشریحات پر اعتراض ہے افغانستان میں شکست کے بعد امریکہ کے پاس سپر پاور کا ٹائٹل نہیں رہا طاقت کے گھمنڈ میں ہمیں کوئی اپنا غلام نہ سمجھے۔