|

وقتِ اشاعت :   December 14 – 2022

ریکوڈک منصوبہ بل کی منظوری کی بعد سیاسی پارہ بڑھ گیا ہے۔ وفاقی حکومت میں موجود بی این پی اور جمعیت علمائے اسلام نے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے اور اس حوالے سے سخت گیر مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر ریکوڈک منصوبے پر بلوچستان کے مفادات کے برعکس فیصلہ کیا گیا تو حکومت کے ساتھ مزید چلنا مشکل ہوگا مگر یہ جمعیت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوگا کیونکہ اس وقت مرکزی حکومت پی ڈی ایم کی چھتری تلے چل رہی ہے جس کے سربراہ جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان ہیں اور اس وقت سب سے زیادہ مشکل وقت مولانا فضل الرحمان پر آیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو کس طرح اکٹھا رکھ سکے گا۔اس وقت جو ریکوڈک کے حوالے سے سیاسی کشیدگی اتحادیوں کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔

اسے کم کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی، ریکوڈک منصوبہ جو پہلے بھی تنازعہ کا شکار رہ چکا ہے جس پر جرمانہ بھی لگ چکا ہے ۔ریکوڈک بلوچستان کاایک بہت بڑا منصوبہ ہے پیپلزپارٹی دور حکومت سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے ،ریکوڈک پراجیکٹ پر تنازع کے باعث گزشتہ کئی سال سے کام بند تھا۔اس تنازع کے باعث غیر ملکی ٹھیتیان کاپر کمپنی نے ثالثی کے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا تھا جن میں سے ایک نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تھا اور پاکستان پر جرمانہ عائد کیا تھا۔

28 برس قبل ریکوڈک منصوبے کا آغاز ہوا لیکن اس سے ملک کو کسی فائدے کے بجائے ناصرف چھ ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا بلکہ سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کو نمٹانے کے لیے ثالثی کے دو بین الاقوامی اداروں میں مقدمہ بازی پر خطیر اخراجات بھی ہوئے ۔گزشتہ برس بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل نے پاکستان پر صوبہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے کروڑوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ کے مقدمے میں تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔بہرحال اب ایک بار پھر ریکوڈک منصوبے کے تنازعے نے سر اٹھالیا ہے، اس بار وفاقی حکومت میں شامل بلوچستان کی بی این پی اور جمعیت علمائے اسلام ،حکومت کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں ،اتحادی حکومت اس مسئلے کو کس طرح حل کرے گی اور کیا پالیسی اپنائے گی، یہ ایک موڑ ہے جس میں سیاسی بحران بھی پیدا ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے حکومت میں رہنے یا علیحدہ ہونے سے متعلق مشاورت کے لیے پارٹی کا اجلاس آج طلب کر لیا۔سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ پارٹی کے اجلاس میں حکومت چھوڑنے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا، اس طرح کے رویے سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو یا ہمارے وسائل، کوئی بلوچستان سے متعلق سنجیدہ نہیں، حکومت نے ہماری شکایات دور نہ کیں تو شہباز شریف حکومت سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔واضح رہے کہ ریکوڈک اور بلوچستان کے وسائل مرکزی حکومت کو تفویض کرنے پر بی این پی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی کابینہ کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔بی این پی کا کہنا تھا کہ ریکوڈک اور وسائل مرکزی حکومت کو دینے پر بلوچستان اور قومی اسمبلیوں میں بل عجلت میں پاس ہوئے۔بہرحال ضلع چاغی جسے معدنیات کے حوالے سے سونے کی چڑیا کہاجاتا ہے ۔

یہاں پر ریکوڈک ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے جو بلوچستان میں واقع ہے ، اس پر بلوچستان کا حق اٹھارویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تسلیم کیاجائے کیونکہ موجودہ حکومت اسی بنیاد پر قائم کی گئی تھی کہ ہم نے سلیکٹڈ کو رخصت کردیا ہے اب یہ عوامی حکومت ہے تو کیا بلوچستان جو دہائیوں سے اپنے ہی میگامنصوبوں کے فوائد سے محروم ہے یہاں کے عوام کو ترقی دینے کیلئے وفاق کیا فیصلے کرے گی یہ چند روز میں واضح ہوجائے گا کہ ریکوڈک منصوبے کا مسئلہ کہاں آکر رک جائے گا ۔بہرحال ترقی اور خوشحالی سب ہی چاہتے ہیں مگر بلوچستان کو نظرانداز کرنا ایک اور زیادتی کی تاریخ ہوگی۔