|

وقتِ اشاعت :   December 18 – 2022

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ ریکوڈک پر بلوچستان اور سندھ اسمبلی ، سینیٹ میں کی گئی قانون سازی 18ویں ترمیم، صوبائی خودمختاری کے خلاف ہے ، بدنیتی پر منبیٰ قانون سازی کر نے سے بلوچستان میں احساس محرومی بڑھے گا، بلوچستان کے مسائل کا حل بندوق نہیں بلکہ حقوق دینے ، عوام کے دل جیتنے میں پنہا ہے ، ریکوڈک پر قانون سازی واپس نہ لی گئی تو وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر سکتے ہیں ۔

یہ بات بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی۔ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی رکن سابق سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر و ضلعی صدر کوئٹہ غلام نبی مری ،بی ایس او کوئٹہ زون کے جنرل سیکرٹری عاطف رودینی بلوچ ضلعی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر علی احمد قمبرانی، ضلعی انفارمیشن سیکریٹری نسیم جاوید ہزارہ سمیت دیگر نے بی این پی ضلع کوئٹہ کے زیر اہتمام وفاقی اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے ریکوڈک معاہدے اور قانون سازی کے خلاف منان چوک کوئٹہ پر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئر مین میر اختر حسین لانگو، رکن صوبائی اسمبلی احمد نواز بلوچ، ٹائٹس جانسن سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔مقررین نے کہا کہ ریکوڈک ،سیندک ، گوادر سمیت دیگر وسائل سے مالا مال بلوچستان آج ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔

18ویںترمیم کی شکل میں صوبوں کو خود مختاری دی گئی مگر راتوں رات بلوچستان اور سندھ میں اور اس کے بعد مرکز میں آئین میں ترمیم کر کے بلوچستان کے حقوق پر شب خون مارا گیا ۔انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحادی ہونے باوجود ہمیں بے خبر رکھا گیا صوبے میں 12دسمبرکے بجائے اسمبلی کا اجلاس 10دسمبر کو بلایا ہمیں اجلاس کی کاروائی سے متعلق بھی آگاہ نہیں کیا گیا تین بجے کے اجلاس میں ساڑھے تین بجے اجلاس کی کاروائی بتائی گئی اس اجلاس میں ایک قرار داد کے تحت صوبے کے ٹیکس سمیت دیگر اختیارات وفاق کو دیا گیا حکومتی ارکان جو عموما اجلاس میں نہیں آتے وقت سے پہلے ہی اجلاس میں موجود تھے جمعیت علماء اسلام اور بی این پی کے ارکان نے قرار داد کی بھر پور مذمت کی تین ،چار منٹ میں اجلاس کی کاروائی نمٹا ئی گئی ۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اگر ریکوڈک سے متعلق قانون سازی واپس نہیں کریگی تو ہم حکومتی اتحادچھوڑنے سے متعلق سوچیں گے ۔مقررین نے کہا کہ جو جماعتیں بلند و بانگ دعویٰ کر رہی ہیں ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ماضی میں انکی حکومت میں تمام معاہدوں پر انکے دستخط ہیں آج وہ احتجاج کر کے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں ۔مقررین نے کہا کہ بلوچستان سے نکلنی والی گیس ختم ہورہی ہے یہ گیس دور دراز علاقوں میں گئی اس سے لوگ مستفید ہوئے لیکن صوبے کے چند بڑے شہروں کے علاوہ کسی علاقے میں گیس نہیں ہے آج بھی لوگ منفی درجہ حرارت میں عوام گیس سے محروم ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سیندک کا معاہد ہ2فیصد پر کیا گیا 25سال سیندک سے سونا چاندی نکالا گیا لیکن اس سے بھی صوبے کو کچھ نہیں ملا ،ماضی میں بھی ریکوڈک پر بی این پی کا مطالبہ تھا کہ صوبے کو کم از کم 50فیصد حصہ دیا جائے آج بھی ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ صوبے کو اسکا حق دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں شورش سمیت دیگر مسائل بتدریج بڑھے ہیں یہ کئی دہائیوں کی ذیادتی کا نتیجہ ہیں حکمران اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں بلوچستان کا مسئلہ بندوق نہیں بلکہ عوام کے حقوق دینے ،وسائل پر اختیار اور انکے دل جیتنے سے حل ہوگا ۔مقررین نے کہا کہ ناانصافیوں کو تقویت دینے سے نوجوان مزید متنفر ہونگے گوادر میں سرمایہ کاری تو ہورہی ہے۔

مگر گوادر کے عوام کو ایک اچھا ہسپتال ،سکول، تکنیکی ادارے نہیں ہیں بلوچستان کے لوگ جمہوری جدوجہد کر رہے ہیں انکے ہاتھ مضبوط کئے جائیں ،صوبائی خودمختاری کو مزید مستحکم بنایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے تو یہاں کے عوام کے اختیارات اور وسائل کو چھیننے کا سلسلہ بند کیا جائے ۔مقررین نے کہا کہ 18ویں ترمیم بنانے کے بعد بھی اس پر عملدآمد نہیں کیا جاتاہم سے اٹھارویں ترمیم اور نیشنل ایکشن پلان مرتب کر تے وقت مشورہ نہیں کیا گیا لیکن بی این پی روز اول سے آج تک دستور پر عملدآمد کرتی رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریکوڈک پر مرکز کو کچھ بھی نہیں ملنا چاہیے اس میں پچاس فیصد سے زائد حصہ بلوچستان کو ملنا چاہیے جبکہ 30سے 35فیصد اس کمپنی کو دیا جائے جو اس پر کام کر رہی ہے دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام ریکوڈک پر حکومتی خفیہ معاہدہ اور سینٹ و قوم اسمبلی سے ریکوڈک کے متعلق پاس کی گئی قرار دادوں کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی،ریلی بی این پی ضلع خضدار کے صدر میر شفیق الرحمن ساسولی،مرکزی پبلیکشن سیکرٹری رئیس ڈاکٹرعبدلقدوس کرد کی قیادت میں بی این پی کے ضلعی سیکرٹریٹ چاکر خان روڈ سے برآمد ہوئی ریلی کے شرکاء مختلف شاہراوں سے گزرتے ہوئے خضدار پریس کلب کے سامنے پہنچ کر احتجاجی مظاہرہ کیا مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔

جن پر مختلف قسم کے نعرے درج تھے،مظاہرین سے بی این پی کے ضلعی صدر میر شفیق الرحمن ساسولی،مرکزی پبلیکشن سیکرٹری رئیس ڈاکٹر عبدالقدوس کرد،ضلعی جنرل سیکرٹری عبدالنبی بلوچ،محمد بخش مینگل،ندیم گرگناڑی،میر صادق غلامانی،محمد ایوب عالیزئی،احمد خان گرگناڑی،عصمت بلوچ،قادر بخش گرگناڑی اور دیگر نے خطاب کیا مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ 1948 ء سے لیکر آج تک ہمیشہ بلوچستان کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔

18 ویں ترمیم کے بعد ایک امید سی پیدا ہو گئی تھی کہ اب صوبوں کا ان وسائل پر حق ملکیت تسلیم کیا جائے گا اور صوبوں کے وسائل پر وفاق بین الاقوامی سطح کا کوئی معاہدہ نہیں کرے گی مگر افسوس موجودہ حکومت نے نہ صرف سابق روایات کو برقرار رکھا بلکہ ایک نئے اضافہ کر کے اٹھارویں ترمیم کو بالا طاق رکھ کر ریکوڈک کے حوالے سے نہ صرف خفیہ معاہدہ کیا بلکہ سینٹ میں اس حوالے سے قرار داد پاس کرواکر یہ ثابت کر دیا کہ وفاق کبھی بھی بلوچستان سمیت دیگر چھوٹی صوبوں کا ان کے وسائل کی حق ملکیت پر ڈاکہ ڈال سکتی ہے مقررین نے کہا کہ بی این پی واحد جماعت ہے جو بلوچستان کی ترجمانی کرتی ہے۔

بلوچستان کے حقوق کی حفاظت کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے،آج بھی بی این پی حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود بلوچستان کے حقوق پر ڈاکہ زنی کے خلاف صف اول کا کردار ادا کر رہی ہے اس حوالے سے بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بڑے مدلل اور واضح الفاظ میں تقریر کر کے بلوچستان کی حق نمائندگی ادا کر دی ہے ہم کسی کی مخالفت نہیں کرتے ہم سمجھتے ہیں کہ آج حالات یکجہتی کا متقاضی ہیں ہم بلوچستان کے ایسے خصوصاً ریکوڈک اور دیگر وسائل کے ایشوز پر بلوچستان کے تمام قوم پرست پارٹیوں کو مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی دعوت دیتے ہیں ۔

آئیں ملکر بلوچستان کے حقوق کی تحفظ کریں ریکوڈک اور دیگر وسائل کی تحفظ کریں تاریخ اور قوم گواہ رہے ہم ان میں شامل نہیں کہ جو کہتے ہیں کہ ہمارے ناک کے نیچے سب کچھ ہوتا رہا ہمیں معلوم تک نہیں پڑا ہم واضح کرتے ہیں کہ ہمیں جونہی ریکوڈک کے حوالے سے اس نا انصافی کا علم ہوا ہماریے قائدین،اراکین پارلیمنٹ سب نے بھر پور احتجاج کیا اور آج بھی ہم احتجاج کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ جب ہم سب قومی مفادات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یکجا ہوکر ان قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا جو ہمارے وسائل پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں اگر ہم آپس میں الجھ پڑیں گے تو ان قوتوں کو فوقیت ملے گی جن کے خلاف ہم سب الگ الگ واویلا کررہے ہیں۔