|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2022

ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اس وقت ایک آئینی اور سیاسی بحران موجود ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت آمنے سامنے ہیں 8 ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود کشیدگی کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔

پنجاب کی حیثیت ملکی اقتدار میں مرکزیت کا کردار ادا کرتی ہے پاور پالیٹکس جو پنجاب میں جاری ہے اس کا بنیادی مقصد اپنی طاقت کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ مستقبل کی جنگ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی ،نصف ق لیگ جو دو دھڑوں میں تقسیم ہے جس میں ایک گروپ کی سربراہی چوہدری شجاعت جو پارٹی قائد ہیں وہ کررہے ہیں پی ڈی ایم کے ساتھ ہے جبکہ ایک گروپ پرویز الٰہی کے ساتھ پنجاب حکومت میں شامل ہے۔ پنجاب میں موجودہ جنگ مستقبل کیلئے لڑی جارہی ہے پنجاب سے اکثریت لینے والی جماعت مرکز میں باآسانی حکومت بناسکتی ہے جہاں نشستوں کی تعداد زیادہ اور پاور بھی زیادہ ہے لہذا زور آزمائی بھی اسی طرح جاری ہے، اس میں کون کس کو مات دے گا یہ تو واضح نہیں ،لمحہ بہ لمحہ حالات بدلتے جارہے ہیں۔

پی ڈی ایم اور چوہدری شجاعت ق لیگ گروپ نے پنجاب میں عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ایک بار پھر اس لئے کرلیا کہ پی ٹی آئی پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کرنے جارہی تھی ۔گورنر پنجاب نے بھی اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے اجلاس بلانے کے لیے آرڈر جاری کئے جس پر اسپیکر نے واضح جواب دیا کہ اجلاس جاری ہے اس پر دوسرا اجلاس کیسے بلایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ شب گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کر دیا جس کا نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا ہے۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ یقین ہے وزیراعلیٰ کو اراکین اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں،اس نوٹی فکیشن کے بعد پنجاب کابینہ ختم ہوگئی ہے۔ نوٹی فکیشن کے مطابق پرویزالٰہی نئے قائد ایوان کے انتخاب تک عہدے پر کام جاری رکھیں گے۔ البتہ یہ قانونی جنگ جلد ٹلنے والا نہیں بلکہ طول پکڑے گا مگر جیت کس کے پلڑے میں آئے گی یہ تاحال واضح نہیں ۔بات ایک ہی جگہ رک جاتی ہے کہ تخت پنجاب کا حصول مستقبل میں مرکز میں اپنی حکومت بنانا ہے۔