بلوچستان میں شدید سردی کے دوران گیس اور بجلی کے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوکر رہ گئے ہیں، کوئٹہ سمیت دیگر سرد علاقوں میںدرجہ حرارت منفی پانچ سے دس تک پہنچ گئی ہے اس صورتحال میں گیس نہ ہونا ظلم کی انتہاء ہے۔ بلوچستان گیس سپلائی کرنے والا بڑا صوبہ ہے ،سوئی گیس پورے ملک میں فراہم کی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے یہی سوئی گیس جو ڈیرہ بگٹی کے ضلع سے دہائیوں سے نکل رہی ہے جو ملک بھرکی صنعتوں سمیت دیگر شہروں کی صارفین کی ضروریات پوری کررہی ہے مگر بلوچستان اس سے آج تک محروم ہے، اورجن چند علاقوں کو گیس فراہم کی جاتی ہے وہاں بھی گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے دیگریہ کہ گیس لوڈشیڈنگ کا کوئی وقت نہیں ،خاص کر سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس ناپید ہوجاتی ہے لوگ لکڑیوں سے سردی سے بچاؤ کا انتظام کرتے ہیں۔ افسوس ہی کیاجاسکتا ہے کہ بارہا اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دلانے کے باوجود بلوچستان کے عوام کو گیس فراہم نہیں کی جاتی ۔اس کے ساتھ زیادتیوںکی ایک سلسلہ یہ بھی ہے کہ گیس رائلٹی کی مد میں صوبے کورقم نہیں ملتی جو واجب الادہے ۔
سوئی گیس جہاں سے نکلتی ہے قریب سے گیس پائپ لائن گزرنے والے صرف اس کا دیدارکرتے ہیں مگر انہیں گیس نہیں ملتی، لکڑیاں جلاکر اپنے گھرکاچولہاجلاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں تو گیس کی دستیابی کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا ، شکایت کس سے کی جائے ۔سوئی بلوچستان میں ہے لیکن اس کا ہیڈآفس کراچی میں ہے ،گیس کے ساتھ ملازمتوں پر بھی ڈاکہ ڈال کر حقوق غضب کئے جارہے ہیں پھر یہ سوال اٹھایاجاتا ہے کہ بلوچستان کے عوام ناراض کیوں ہیں؟ کیا اس سوال کا کوئی منطق بنتا ہے جب تمام تر صورتحال سامنے ہے تمام حالات سے واقف ہونے کے باوجود بھی ہر وفاقی حکومت آتی ہے تو یہی بات کرتی ہے کہ بلوچستان مسئلے کو سمجھنے اور اسے حل کرنے کی ضرورت ہے مگر جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو مکمل اعداد وشمار کے ساتھ انہیں ہر چیز بلوچستان کی یاد ہوتی ہے کہ بلوچستان کے ساتھ کیا ناانصافیاں ہورہی ہیں؟ اقتدار ملتے ہی بلوچستان کو نظرانداز کرکے حسب معمول وہی رویہ اپنایاجاتا ہے جو گزشتہ ستر سالوں سے جاری ہے یعنی ایک خاص مائنڈ سیٹ بلوچستان کے حوالے سے وفاق میں پایا جاتاہے۔ بہرحال حالیہ سردی میں ایک بڑا مسئلہ سیلاب متاثرین کا بھی ہے جو کھلے آسمان تلے زندگی گزاررہے ہیں ۔شدید سردی میں ان کے پاس کمبل، گرم ملبوسات سمیت کوئی سامان موجود نہیں ۔ سیلاب متاثرین فریاد کررہے ہیں کہ شدید سردی میں بچے، خواتین، بزرگ بیمار ہورہے ہیں، کوئی دادرسی کرنے والا نہیں ہے ،خوراک کی بھی قلت ہے ادویات نہیں، کس طرح وہ اپنی معمولات زندگی گزارینگے ۔
خدارا بلوچستان کے متاثرین کی فریاد سنی جائے، ان کی داد رسی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں۔ دوسری جانب کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں بھی شدید سردی کے دوران گیس مکمل طور پر غائب ہے جس پر گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں اراکین اسمبلی نے شدیداحتجاج بھی ریکارڈ کرایا ۔ اراکین اسمبلی نے شکوہ کیا کہ جنرل منیجر سوئی سدرن گیس کمپنی نے ڈپٹی اسپیکر کے چیمبر میں یقین دہانی کروائی تھی کہ دس روز میں بلوچستان کو گیس کی سپلائی کرنے والی 24انچ قطرکی پائپ لائن کو بحال کردیا جائے گا مگر 2ماہ گزرنے کے باوجود اب تک اس کی مرمت نہیں ہوسکی۔یہ سوئی گیس حکام کا رویہ ہے جس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ بلوچستان میں گیس سپلائی کو کس قدر سنجیدہ لیتے ہیں۔ بہرحال بلوچستان سے گیس نکال کر صرف منافع ہی کمانا مقصود ہے عوام کو سہولت دینا نہیں۔