پولیو کے شکار لوگوں کو مسئلہ صرف بچپن میں ہی نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں یہ معذوری ان کو نت نئے مسائل اور پریشانیوں میں مبتلا کرتی رہتی ہے۔ سریاب کی رہائشی مریم بی بی کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ہے اس وقت ان کی عمر 25 برس ہے مریم بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے والد پولیو کے قطروں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ان کی فیملی ایک پولیو انکاری فیملی تھی جس کی وجہ سے آج میرا یہ حال ہوا ہے۔مریم بی بی کے والد حاجی عارف کا کہنا ہے مجھے مریم کی بیماری کا احساس دو سال کی عمر میں ہوا جب اسے چلنے میں دشواری محسوس ہوئی۔ اس دوران مریم کی طبیعت بھی کافی خراب رہتی تھی جب اپنے علاقے کے ڈاکٹروں کو دکھایا تو پتہ چلا مریم کو پولیو ہو گیا ہے یہ سن کر میں کافی پریشان ہوا کیونکہ میں انتہائی پولیو کے قطرے پیلانے کے خلاف تھا میں پولیو کے قطروں کو محض ایک نسل کشی سمجھتا تھا کہ اسے پلانے سے بچے جلدی بڑے ہو جاتے ہیں اور خصوصا بچیوں کے ہارمونز پر کافی فرق پڑتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی سمجھتا تھا کہ یہ امریکی سازش ہے۔
حاجی عارف کیمطابق جب میں اپنی بیٹی کو دیکھتا تھا کہ وہ دوسرے بچوں کی طرح کھیل نہیں پا رہی اور نہ ہی وہ دوسری سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے تو مجھے بہت افسوس ہوتا لیکن اس بچی کے بعد میرا ایک بیٹا پیدا ہوا اور ڈاکٹرز کے بہت سمجھانے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ اب دوسرے بچوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنا ہے تو میں نے فورا اپنے بیٹے کو پولیو کے قطرے پلائے اور اسی طرح سے ہمارے خاندان میں یہ سلسلہ عام ہوا مریم کہتی ہیں کہ میرے والد مجھے علاج کے لئے کراچی تک لے گئے اور میرا کافی علاج کروایا لیکن اس کے باوجود میں عام بندوں کی طرح زندگی گزارنے سے قاصر تھی۔
صوبہ بلوچستان میں آج بھی کچھ ایسے علاقے موجود ہیں جو پولیو کے قطرے پلانے سے گریز کرتے ہیں ان میں کوئٹہ کے علاقوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دوسرے اضلاع بھی شامل ہیں جن میں پشتون آباد، خروٹ آباد، چکی شاہوانی، کلی جیو، قمبرانی، پشین، اپر پشین، چمن اور قلعہ عبداللہ جیسے علاقوں میں ابھی بھی پولیو کو تسلیم نہیں کیا جاتا ایسے ہی ایک فیملی کا تعلق کوئٹہ کے علاقے نواں کلی سے ہے
نواکلی کے رہائشی جعفر کاکڑ کا تعلق پولیو انکاری فیملی سے ہے ان کا کہنا ہے کہ میں پولیو کے قطرے اپنے بچوں کو نہیں پلاتا کیونکہ بیماریاں تو اور بھی بہت سی ہیں تو ہم لوگ صرف پولیو کی ویکسین کیوں لگائیں ہمارے لئے اور بھی اقدامات کرو ہمیں صحت کی سہولیات دو ہمارے لئے میڈیکل کیمپ لگا و ہمیں دوسری بیماریوں کا مفت علاج دو۔
نوبت علی جن کا تعلق ڈسٹرکٹ رکشان سے ہے اور وہ گزشتہ تین سال سے بطور پولیو انچارج کے طور پر کام کر رہے ہیں نوبت کہتے ہیں کہ لوگوں کو پولیو کے بارے میں آگاہی نہیں ہے غلط افواہوں کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے گریز کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ باہر کے ممالک پتہ نہیں اس میں کیا کیا ملا کر یہ ویکسین تیار کرتے ہیں
پشتون آباد کے رہائشی مولوی عبد الملک جو مدرسہ کشف العلوم میں بطور مہتمم پرنسپل کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ مولوی عبدالمالک پولیو کے قطرے پلانے کے بے حد خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ پولیو یہود اور نصاریٰ کی سازش ہے پولیو نقصان دہ اس لیے ہے کہ اس سے مرد عورت کو نقصان ہوتا ہے امریکہ یورپ اور یو این ہمارے لیے محض اس قدر فکرمند کیوں ہیں وہ ہمارے لیے عربوں کی انویسٹمنٹ کیوں کر رہے ہیں اور کیوں ہمارے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا چاہتے ہیں یہاں پر کینسر، ایڈز اور دیگر مرض بھی موجود ہیں جن کے علاج کی لوگوں کو ضرورت بھی ہے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہم نے سنا ہے کہ اگر مرد پی لے تو مردانہ صلاحیت کو کم کر دیتا ہے اور اگر عورت بھی لے تو اس کا تولیدی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور اس سے کافی مسائل پیدا ہوتے ہیں ہم پولیو کے قطروں کو نہیں مانتے ہم اس کے خلاف ہیں ہم اس مرض کو مرض نہیں سمجھتے ہمارے باپ دادا کے دور میں بھی بچے پیدا ہوتے تھے وہ ٹھیک رہے۔ ہم جامعہ دارالعلوم کراچی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک اور جامعہ ازھر مصر کی کسی تحقیق کو نہیں مانتے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈپٹی پولیو لیڈ ڈاکٹر صفدر پچھلے سات برس سے اس فیلڈ سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ پولیو وائرس کی سرویلینس مختلف چیزوں سے ہوتی ہے جیسے کہ ماحولیاتی سرویلینس جو ہم گندے پانی کے نالوں سے پولیو کا نمونہ لیتے ہیں بلوچستان کے جن علاقوں میں پولیو کی شرح زیادہ تھی ہم نے ان علاقوں سے بھی گندے پانی کا نمونہ لیا لیکن پہلی بار ہم اس نتیجے پر آئے ہیں کہ ہمیں ان علاقوں سے بہت اچھے نتائج ملے ہیں اور نہ ہی انسانی کیسزیز میں سے کوئی نمونہ سامنے آیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر کا کہنا ہے کہ چار علاقوں میں پولیو کی تعداد بہت زیادہ تھی جس میں کوئٹہ، پشینن،اور قلعہ عبداللہ سرہ فہرست ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ 2018 اور 2019 میں کوئٹہ بلاک میں کافی کیسز دیکھنے کو ملے۔ڈاکٹر صفدر کے مطابق تمام ویکسین کے ساتھ ساتھ خصوصا پولیو کی ویکسین کو بھی ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کے کافی والدین ویکسین لگانے سے انکار کرتے ہیں بچہ خود تو فیصلہ نہیں کرتا کہ میں نے قطرے پینے ہیں یا نہیں تو ہمارا ٹارگیٹ کیئر ٹیکر سے ریلیٹڈ رہا ہے۔یو این کی انٹروینشن کا کام ہے پولیو ویکسین اور اس میں خاصی
پولیو کاموذہ مرض اور ہمارے رویے
وقتِ اشاعت : December 29 – 2022