|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2022

ملک میں 2022ء کا سال بھی سیاسی اور معاشی حوالے سے کوئی خاص نہیں رہا۔ سیاسی تبدیلیاں آتی ر ہیں، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ پی ٹی آئی کی تبدیلی سرکار نے بہت سے وعدے کئے تھے جن میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا البتہ یوٹرن بہت لیے گئے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین اورسابق وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی مشترکہ اتحاد پی ڈی ایم نے تحریک عدم اعتماد پیش کی اورانہیں کامیابی ملی، اس طرح اپوزیشن اتحادکی حکومت بن گئی،ن لیگ کے میاں محمد شہبا شریف وزیراعظم منتخب ہوئے۔ جبکہ بلوچستان میں حسب روایت ایک بار پھر وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنی مدت پوری نہیں کی،سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف ان کی اپنی جماعت اور اپوزیشن نے مل کر محاذ کھولا اوران کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی جس کے بعد میرعبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے، دونوں ایک ہی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

پنجاب میں تخت لاہور کی جنگ تاحال جاری ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی ہوئی، پھر بازی پلٹ گئی اب ق لیگ کے پاس وزارت اعلیٰ کا منصب ہے جو پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اتحاد سے قائم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ق لیگ مرکز میں پی ڈی ایم جبکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ سال 2022ء کے دوران موجودہ حکومت جو ماضی میں اپوزیشن میں تھی اس کی جانب سے بھی معاشی ابتری اور ملکی حالات کو بہتری کی طرف لانے کے لیے دھرنے دیئے گئے، احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور یہ وعدہ کیا گیا کہ ہماری حکومت آئے گی ملک کو معاشی دلدل سے نکالے گی اور ہم سیاسی استحکام لائینگے۔ پی ڈی ایم مشن کامیاب توہوگئی مگر سیاسی استحکام اور معاشی بہتری نہیں آئی۔ سابق وزیراعظم کی رخصتی کے بعد پی ٹی آئی اراکین نے قومی اسمبلی سے مشترکہ طور پر استعفیٰ دیا مگر اب تک وہ استعفے قبول نہیں ہوئے جس پر بہت زیادہ سیاست کی جارہی ہے۔ قانونی طریقے سے پی ٹی آئی اپنے پتے کھیل رہی ہے جبکہ حکومت اپنے قانونی داؤ پیج کے ذریعے اپوزیشن کو مات دینے کی کوشش کررہی ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے مارچ اور دھرنے دیئے گئے مگر یہ دیرپا اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔ البتہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دھرنے پر حملہ ہوا جس میں عمران خان سمیت ان کے رہنماء زخمی ہوئے،جو الزامات اس حملے کے متعلق لگائے گئے وہ کوئی نئی اور انہونی نہیں تھے۔ عمران خان کو جب وزیراعظم کی کرسی سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے رخصت کیا گیا تو انہوں نے پہلے ایک سائفر نکال کر اسے بیرونی سازش،پھر امریکہ کانام لے کر باقاعدہ الزام لگادیا کہ امریکہ مجھے بطور وزیراعظم دیکھنا نہیں چاہتا تھا، میری پالیسیوں سے امریکی نالاں تھے یہ سازش باہر تیار ہوئی اندر سے لوگ استعمال ہوئے۔ پھر اپنی ہی سائفر کی کہانی سے یوٹرن لیتے ہوئے انہوں نے امریکہ کی بجائے اسٹیبلشمنٹ پر سارا الزام دھردیا اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جنرل جاوید باجوہ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور بتایا کہ سابق آرمی چیف نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو این آر او ٹو دیا ہے۔ یہی عمران خان تھے جو وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر سابق آرمی چیف کی تعریفوں کے پُل باندھتے تھے اور یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ واحد آرمی چیف ہیں جو جمہوریت پسند ہیں اور ایک پیج پر ہم رہ کر کام کررہے ہیں۔پھر ان باتوں سے بھی یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ میرے ہاتھوں میں کچھ نہیں تھا، نہ ہی میری سنی جاتی تھی نیب جیسا ادارہ بھی میرے ہاتھ میں نہیں تھا۔ بہرحال یہ الزامات کا سلسلہ جاری تھا کہ آڈیو لیکس کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔

اور بہت سارے انکشافات سامنے آئے۔ اسی طرح توشہ خانہ سمیت دیگر بڑے اسکینڈل عمران خان کے خلاف سامنے آئے۔ ملک میں اس وقت سیاسی کشیدگی برقرار ہے استحکام تو دکھائی نہیں دے رہا مگر افسوس کہ سال کے آخر میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے ہیں،جو تشویشناک صورتحال ہے اگر اس پر توجہ نہیں دی گئی تو نئے سال میں بہت سارے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں سیاسی جنگ اور انا سے باہر نکل ہی نہیں رہیں، ملک بدترین حالات کا شکار ہے اگر نئے سال میں عوام کی بہتری کے لئے کچھ کرنا ہے۔

تو سب سے پہلے تمام جماعتوں کو بیٹھ کر بات چیت کرکے مسائل حل کرنے ہونگے، عام انتخابات سمیت دیگر مسائل صرف مذاکرات سے حل ہونگے،سیاسی جماعتوں نے پہل کی تو سیاسی استحکام،معاشی بہتری، دہشت گردی کاخاتمہ ممکن ہوگا۔ عوام کی امنگوں اور خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کئے جائیں تاکہ عوام نئے سال میں کچھ تو سکون کا سانس لے سکیں۔