|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2023

ملک میں 2023ء سیاسی تبدیلی کا سال ثابت ہوگا ویسے ہی عام انتخابات قریب آتے ہی سیاسی جماعتوں کی تمام تر توجہ پارٹی کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہوجاتی ہے جس میں ہدف اہم سیاسی شخصیات ہوتے ہیں سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ حلقے کے بااثرافراد کو پارٹی میں شامل کرسکیں۔

اس وقت بلوچستان میں اہم شخصیات پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں سیاسی وقبائلی شخصیات کی بڑی تعداد پیپلزپارٹی میں جارہے ہیں جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان پیپلزپارٹی بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ذرائع کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی جو 2018ء کے آغاز میں تشکیل دی گئی تھی ان سے تعلق رکھنے والے اہم شخصیات بھی شامل ہونگے باپ کا مستقبل کیا ہوگا۔

یہ کہنا قبل ازوقت ہے مگر اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان میں اکثریت رکھتی ہے اور حکومت کررہی ہے بہرحال باپ کے اندر اختلافات اول روز سے وزارت اعلیٰ کے منصب ، وزراء مشیران کے معاملے پر شروع ہوگیا تھاجس کے بعد جام کمال خان کو فارغ کردیا گیا اور میرعبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب کیا گیا مگر یہ اختلافات کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرگئے ہیں باپ اندرون خانہ کمزور توہوتا جارہا ہے اب حکومتی مدت کے آخری وقت میں باپ کی پوزیشن بھی واضح ہوجائے گی کہ کونسی شخصیات باپ کو خیرباد کہہ کر دوسری جماعت میں جائینگے۔

مگر قوی امکان ہے کہ پیپلزپارٹی میں ہی جائینگے۔چیف آف سراوان نواب اسلم رئیسانی نے جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بھی شمولیتی تقاریب منعقد کی جارہی ہے جس میں قبائلی اور سیاسی شخصیات بی این پی اور نیشنل پارٹی میں شامل ہورہے ہیں جبکہ دونوں جماعتوں کے درمیان پہلے الیکشن کے حوالے سے اتحاد کی باتیں چل رہی تھی مگر پھر تلخیاں پیداہوگئی ہیں دونوںپارٹی کی جانب سے بیان بازی نے معاملہ کو خراب کردیا فی الحال اب سیزفائر ہوچکا ہے البتہ اتحاد کے حوالے سے کوئی خاص ماحول دکھائی نہیں دے رہا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ملاقاتیں پارٹی قیادت کے درمیان ہورہی ہیں اس سے یہی نتیجہ اخذکیاجاسکتا ہے کہ دونوں جماعتیں اپنی اپنی پوزیشن الگ مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔

اب کسی مخلوط حکومت کا حصہ بنیں گی یا نہیں یہ مرکزی جماعتوں کی قربت اور پوزیشن سے واضح ہوگا۔ بہرحال بلوچ حلقوں کی جانب سے ہر وقت اس خواہش کا اظہار کیاگیا ہے کہ دونوں جماعتیں اتحاد کرکے حکومت بنائیں تاکہ ان کے مسائل حل ہوسکیں اور بلوچستان کے سیاسی ، معاشی معاملات سمیت دیگر اہم مسائل حل ہوسکیں اور بلوچستان بھی امن اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوسکے ۔ دونوں جماعتوں کے پارٹی قائدین کے درمیان خلیج بہت زیادہ ہے بات چیت ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں مگر اتحاد کی تشکیل نہیں ہوسکی ۔

دونوں جماعتوں کی قائدین سے جب اس حوالے سے بات کی جاتی ہے ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ ہم سنجیدہ ہیں ان کی لیڈرشپ دلچسپی نہیں لے رہی ہے اب اتحاد کیوں نہیں کرتے اصل محرکات کیا ہیں ؟ یہ واضح طور پر نہیں بتایاجاتا ہے۔ مرکز میںاس وقت پی ڈی ایم کی بڑی اتحاد حکومت کررہی ہے عام انتخابات کے قریب آتے ہی راستہ جداہوجائینگے ، نگراں حکومت کے آتے ہی اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے حلقوں پر اپنا اثر ونفوذ بڑھانے کی کوشش کرینگے خاص کر پنجاب ہدف ہوگا جہاں سے اکثریت لینا ضروری ہے تاکہ حکومت بنانے میں آسانی ہوسکے پی ٹی آئی بھی زور آزمائی کررہی ہے دیکھتے ہیں 2023ء سیاسی ومعاشی حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوگا۔