ملک کے شہری گیس کا انتظار نہ کریں متبادل ذرائع تلاش کریں ، حکومت اور گیس کمپنی کی جانب سے طفل تسلیاں جاری رہینگی مگر گیس نہیں ملے گی۔ توانائی بحران کا تذکرہ پہلے ہی حکومت کرچکی ہے جس کی وجہ سے گیس کمپنی کو ایک اورموقع فراہم ہوگیا ہے، ویسے بھی پہلے سے سوئی سدر ن گیس کمپنی گیس فراہم نہیں کررہی تھی ،اب توانائی بحران کا ایک بہانہ ہاتھ آنے کے بعد ان کے پاس جواز بہت زیادہ ہے شکایات اور احتجاج کرنے سے اپنے ہی شہریوں کو اذیت میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ شاہراہوں ، سڑکوں پر دھرنا دینے والے اگر متاثرین ہیں تو اسی طرح شاہراہوں اور سڑکوں پر گھنٹوں خواری کاٹنے والے بھی گیس سے محروم شہری ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے بنیادی سہولیات کے لیے شہری سراپااحتجاج ہیں مگر افسوس کہ حکمران طبقہ بے حس ہے عوام سے انہیں کوئی غرض نہیں، ماضی اور آج کے سیاسی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو انہیں اپنے تخت کے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ پی ٹی آئی کے دور میں بہت زیادہ نقصان یقینا ہوا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ،بہت لاڈ اور پیارسے، بڑے انتظامات کے ذریعے پی ٹی آئی کو حکومت میں لانے کا بندوبست کیا گیا جس کا اعتراف خود پی ٹی آئی کے چیئرمین اورسابق وزیراعظم عمران خان کرتے ہیں اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ تمام فیصلے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ کرتے تھے میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا نیب جیسا ادارہ بھی میری نہیں سنتا تھا تو اس بات کوان کی نالائقی اور نااہلی ہی سمجھتے ہوئے انکشاف نہیں بلکہ اعتراف جرم سمجھا جائے۔
عمران خان کی باتوں میں کتنی صداقت ہے سائفر سے لیکر توشہ خانہ کیس سمیت نجی زندگی کے معاملات پر الیکشن کمیشن کے سامنے جھوٹا حلف نامہ واضح ہے، جبکہ اس کی ایک طویل تاریخ یوٹرن کی بھی ہے کہ ملک میں وہ کس طرح کی تبدیلی لانے کے وعدے اور دعوے کرتے رہے ہیں۔ بہرحال اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ عمران خان کو اپوزیشن کی مشترکہ اتحاد نے عدم اعتماد کی تحریک سے فارغ کردیا اور اب مرکز میں پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت ہے جس بنیاد پر اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف محاذ کھولا تھا اس میں معاشی ، توانائی سمیت دیگر بحرانات بھی تھے اور عوام کو یہی بتایا گیا کہ عمران خان مزید اقتدار میں رہے تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا اس لیے عمران خان کو نکالنا ناگزیر ہوچکا ہے ورنہ ملک بڑے بحران سے دوچارہوجائے گا ۔
اب ملک میں معاشی اور امن وامان کی صورتحال سامنے ہے عوام کو اب تک پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کیا ریلیف ملا ہے؟ جب یہ سوالات موجودہ حکومت سے کئے جاتے ہیں تو ان کی جانب سے عمران خان کو موردالزام ٹہرایاجاتا ہے اگر حالات اسی طرح خراب ہی رہنے تھے تو پی ڈی ایم نے حکومت میں جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ پی ڈی ایم قیادت چاہتی تو الیکشن کی طرف جاتی اور عمران خان کا حساب عوام سے لیتی مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔حکومت لی گئی ہے تو یقینا بحرانات سے نکالنے کی ذمہ داری بھی حکومت کی بنتی ہے جو لینے کے لیے تیار نہیں۔حکومت کے بعض وزراء اب خود اعتراف کررہے ہیں کہ ان حالات میں ہمیں حکومت نہیں لینی چاہئے تھی بلکہ الیکشن کی طرف جاتے تو بہتر ہوتا ،آج عمران خان کی ناقص پالیسیوں کے باعث اٹھنے والے بحرانات کا ملبہ ہم پر گِر رہا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے پہلے روز ہی کہہ دیا تھا کہ حکومت نہیں لینی چاہئے مگر میاں محمد شہباز شریف نے پی ڈی ایم قیادت کے ساتھ مشاورت کرکے حکومت لے لی تو اس میں نواز شریف کی خواہش بھی کسی حد تک شامل ہوگی ۔ بنیادی سوال اب یہ ہے کہ حکومت کیوں لی گئی کیا مفادات حاصل کرنے تھے، جواب دہ سب ہیں ۔
عوام کو اس شدید سردی میں گیس نہیں مل رہی ہے، اندازہ لگایاجائے کہ وہ کس طرح سے مفلوج زندگی گزاررہے ہیں اور بیماریوں سمیت خدانخواستہ اموات کے خدشات بھی ہوسکتے ہیں ۔خدارا عوام پر رحم کھاتے ہوئے ان کے مسائل کو حقیقی معنوں میں حل کریں محض تسلیاں دیکر ٹرخایا نہ کریں۔