|

وقتِ اشاعت :   January 4 – 2023

بلوچستان میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصانات ہوئیہیں اور اب تک بعض علاقوں میں صورتحال بہتر نہیں ہے، ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں پر سیلابی ریلوں کے باعث پُل بہہ جانے کی وجہ سے ٹریفک بحال نہیں ہوسکی ہے ، ٹرانسپورٹرز اور شہریوں کو بہت زیادہ اذیت کا سامنا کرناپڑرہا ہے، بجلی کے کھمبے گرنے کی وجہ سے علاقے تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں، لوگوں کے مکانات ، زمینیں، مال مویشی ختم ہوگئے ۔یہ تاریخ کی بہت بڑی آفت تھی جس نے بہت ساری تباہی مچاہی اور اب تک سیلاب متاثرین کرب سے گزررہے ہیں ،شدید سردی کے باعث کھلے آسمان تلے، خیموں میں بچے، بزرگ اور خواتین بیمار پڑرہے ہیں ،معمولات زندگی مفلوج ہے ، گیس پائپ لائن متاثر ہوئے ہیں گیس کی سپلائی مکمل بحال نہیں ہوسکی ہے جس پر بلوچستان اسمبلی میں احتجاج بھی ریکارڈ کرایا جاچکا ہے ۔

اس وقت بلوچستان کے سیلاب متاثرین مفلوج زندگی گزاررہے ہیں اول روز سے نشاندہی کی جارہی ہے کہ بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی مالی امداد، ضروری اشیاء سمیت دیگر بندوبست سردی سے پہلے کئے جائیں تاکہ لوگوں کی مشکلات کم ہوسکیں مگر اب تک ان کی داد رسی نہیں ہوئی ہے۔ البتہ یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے عزم کااظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کو گھروں کے لیے معاوضہ دینے کی بات ذہن میں آتی ہے تو راتوں کو نیند نہیں آتی، 10 لاکھ گھر پانی میں بہہ گئے ہیں، ان شاء اللہ ہم انہیں معاوضہ دیں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے ضلع صحبت پور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے پورا صحبت پور ضلع پانی میں ڈوبا ہوا تھا، یہاں پانی اور خوراک پہنچانا آسان کام نہیں تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ اتنا بڑا سیلاب اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا، سندھ کا میدانی اور بلوچستان کا پہاڑی علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا، خوف آتا تھا کہ کس طرح ان متاثرین کی مدد کریں گے۔شہباز شریف نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ جن حالات میں ہم نے حکومت سنبھالی تھی، آئی ایم ایف سے معاہدہ ٹوٹ چکا تھا اور مہنگائی عروج پر تھی لیکن اس کے باوجود وفاق نے سیلاب متاثرین کے لیے 100 ارب روپے خرچ کیے اور ابھی بھی سیلاب متاثرین کے لیے کئی سو ارب روپے درکار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 9 جنوری کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ جینیوا کی ڈونرز کانفرنس کی سربراہی کروں گا، اسی سلسلے میں برادر ممالک کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے رہا ہوں، ملائیشیا کے وزیراعظم سے بھی گزشتہ روز گفتگو کی ہے۔وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ہمیں خود ہمت پیدا کرنی ہوگی، سیلاب کے دنوں میں یہ علاقہ اور اسکول پانی میں ڈوبا ہوا تھا لیکن آج صحبت پور کا یہ علاقہ دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا اور یہ تمام چیزیں دیکھ کر مجھے پنجاب کے دانش اسکول یاد آگئے۔وزیر اعظم نے پورے بلوچستان میں 12 دانش اسکول بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دانش اسکول میں غریب اور یتیم بچوں کے لیے مفت تعلیم اور کھانے کا انتظام ہو گا۔

چیف سیکرٹری بلوچستان دانش اسکولوں کے لیے زمین ڈھونڈیں اور فوری سنگ بنیاد رکھیں۔ صحبت پور دانش اسکول میں ہاسٹل اور دیگر سہولتیں مکمل ہونے پر 23 مارچ کوافتتاح کریں گے، بلوچستان میں اعلان کردہ 12 دانش اسکولوں کے ساتھ کلینک بھی ہوں گے اور اسکولوں کو شمسی توانائی کے ساتھ چلایا جائے گا جبکہ اسکولوں میں ای لائبریری بھی ہو گی۔وفاقی حکومت کی جانب سے جتنا ممکن ہو ہنگامی بنیادوںپرسیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ متاثرین کے درد کامداواہوسکے، اس وقت صورتحال بہت زیادہ گھمبیر ہے جو رپورٹ بھی نہیں ہورہی، مگر مقامی لوگوں کے ذریعے شکایات سامنے آرہی ہیں کہ انہیں اب تک سہولیات میسر نہیں ہیں۔ بہرحال مسائل بہت زیادہ ہیں اور انہیں کم کرنے کے لیے حکومت نے تمام وسائل بروئے کارلانے ہونگے تاکہ شکایات کاازالہ ہونے کے ساتھ انسانی زندگیوں کو بچایاجاسکے اور معمولات زندگی بھی بحال ہوسکے۔