ملک میں عام انتخابات جلد کرانے کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل مطالبہ کیاجارہا ہے مگر جن صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں اب تک اسمبلیاں تحلیل نہیں کی گئیں ہیں ۔پنجاب میں سیاست دلچسپ موڑ اختیار کرتی جارہی ہے کل تک پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویزالہٰی اور ان کے صاحبزادے مونس الہٰی یہ کہہ کر نہیں تھکتے تھے کہ جب بھی خان صاحب اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہیں گے۔
ان کے حکم کی تعمیل کی جائے گی مگر گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب نے عدم اعتماد کے ووٹ کے متعلق پی ٹی آئی قائدین پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ غیر سنجیدہ بیان دینے سے گریز کریں ،عدم اعتماد کی تحریک کاووٹ نہیں لینگے جبکہ عمران خان یہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کا ووٹ لیکر اسمبلی فوری تحلیل کی جائے مگر پرویز الہٰی اب پیچھے ہٹ گئے ہیں اور عمران خان نے پرویزالہٰی کووارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو پی ٹی آئی اراکین پنجاب اسمبلی مستعفی ہو جائیں گے۔ اب پنجاب میںجنگ وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان نہیں ہورہی بلکہ پی ٹی آئی اور ق لیگ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آگئے ہیں ۔
پرویزالہٰی اس سے قبل بھی پنجاب حکومت کی تحلیل اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے متعلق اپنا واضح پیغام پی ٹی آئی کو دے چکے ہیں مگر ساتھ ہی عمران خان کی تعریف وتوصیف بھی کررہے ہیں اس خواہش کے تحت کہ عمران خان مجھ سے خوش رہے اور تخت پنجاب کے معاملے پر میرے مؤقف کی تائید کریں مگر اب یہ معاملہ پیچیدہ ہوتا جارہاہے ۔
پی ٹی آئی کی جانب سے بھی کبھی ہاں تو کبھی نہ کا معاملہ سامنے آرہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے 9 جنوری کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اعتماد کا ووٹ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر نے 9 جنوری کے اجلاس میں اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے اراکین کو کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔ذرائع کا بتانا ہے کہ قانونی ماہرین نے عمران خان کو رائے دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ عدالتی فیصلے سے مشروط کیا جائے، اعتماد کے ووٹ کے لیے گورنر کے حکم کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق قانونی ماہرین نے عمران خان کو رائے دی ہے کہ اگر عدالتی فیصلے سے قبل اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں تو گورنر کا آرڈر آئینی ہو جائے گا۔بہرحال عمران خان یوٹرن لینے میں بہت ماہر ہیں اس وقت جس طرح سے وہ مختلف طریقوں سے اسٹیبلشمنٹ اور وفاق پر دباؤ بڑھانے کے لیے کبھی احتجاج تو کبھی الزامات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں ، تواب ایک بار پھر سابقہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے ساتھ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی بیان دینا شروع کردیا ہے عمران خان کا کہنا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ بھی نیوٹرل دکھائی نہیں دے رہی ہے،ہمارے ارکان اسمبلی کو فون کالز آرہے ہیں ۔
عمران خان نے ماضی میں جس طرح سے اس وقت کے آرمی چیف جنرل(ر) قمرجاوید باجوہ کی جمہوریت پسند سوچ کی تعریف کیا کرتے تھے کہ وہ ایک پیج اور جمہوریت کے ساتھ چلنے والی سوچ رکھتے ہیں جواپوزیشن کو پسند نہیں مگر جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو عمران خان نے سنگین الزامات لگانا شروع کردئیے اور نیوٹرل ،جانور جیسے القابات استعمال کئے۔ عمران خان کی اصل خواہش یہی ہے کہ انہیں کسی طرح سے بھی سہولت میسرآسکے ،ادارے نیوٹرل ان کے حق میں رہیں، ان کے لیے راستہ ہموار کریں ۔
ساڑھے تین سال کے دوران عمران خان کو مکمل سپورٹ حاصل رہی مگر پی ٹی آئی حکومت نے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا بلکہ معیشت کو زمین بوس کرکے رکھ دیا آج جس طرح سے معاشی بحران کا ملک کو سامنا ہے ماضی کی غلط معاشی فیصلوں کی وجہ سے ہے۔ البتہ اب سیاسی عدم استحکام پی ٹی آئی کا ہدف ہے اگر ان کی سیاست اسی طرح چلتی رہی تو یقینا اس سے نقصان پی ٹی آئی کوہی ہوگا۔