کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے غیرمعمولی جیت اپنے نام کرکے خاص کر کراچی کی سیاسی ومذہبی جماعتوں کو دھچکا پہنچایاکراچی اور حیدرآباد میں دہائیوں تک متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کا سیاسی اثرونفوذ رہا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کراچی کے علاقے لیاری اور ملیر کے حلقے میں زیادہ مقبول رہی ہے اور سب سے بڑا گڑھ لیاری ہے جہاں سے ہمیشہ پیپلزپارٹی کی جیت یقینی رہی ہے۔
2018ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو لیاری میں شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر یہ بات بھی واضح ہے کہ ان نتائج کو شک کی نگاہ سے دیکھاگیا کیونکہ جو جماعتیں لیاری سے جیت کرآئیں ان کی بنیاد ہی لیاری جیسے حلقے میں نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسا کارنامہ کبھی سرانجام دیا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاتا کہ ان جماعتوں کو کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ملے ہیں،ہاں البتہ لیاری میں بدامنی کی وجہ سے پاکستان پیپلزپارٹی پر الزامات لگائے گئے مگر یہ بات لیاری اور ملیر کے باسی جانتے ہیں ۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کبھی بھی لیاری میں ہونے والی بدامنی اور گینگ کے سرپرستوں کی حمایت نہیں کی بلکہ پارٹی کے اندر جرائم پیشہ افراد کو گھسنے نہیں دیا اور نہ ہی ان کی سرپرستی کی جس کی بہت ساری مثالیں اب بھی ریکارڈکا حصہ ہیں کہ کس طرح سے لیاری کے اندر ایک خوف پھیلاکر پیپلزپارٹی کو یرغمال بنانے کے لیے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو نشانہ بنایاگیا،ان کے گھر خالی کروادیئے گئے جبکہ چندشخصیات کو سرعام قتل کیا گیا جس کے باعث لیاری کے اندر موجود پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے نقل مکانی کی۔ لیاری سے ہی تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر مرحوم رفیق انجینئر کے گھر کو نذرآتش کردیا گیا جس کی وجہ سے انہیں علاقہ چھوڑنا پڑا یہ تمام مجبوری میں ہوا۔ لیاری اورملیر میں ہمیشہ پاکستان پیپلزپارٹی نے مقامی نمائندگان کو زیادہ ترجیح دی اور انہیں ٹکٹ دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو 2018ء میں جس طرح سے شکست ہوئی اسے کسی کا ذہن قبول نہیں کرتا کیونکہ غیرمقبول شخصیات پیپلزپارٹی کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔
اگر ماضی کاجائزہ لیاجائے تو پاکستان پیپلزپارٹی کے سامنے سب سے مضبوط طور پر الیکشن لڑنے والے لیاری سے ہی تعلق رکھنے والے بلوچ قوم پرست جماعتوں کے رہنماء تھے،ان کی شخصیات بھی بے داغ رہی ہیں انہوں نے جمہوریت کی بقاء کے لیے جیل کی صعوبتیں کاٹیں، جلاوطن ہوئے، غیر جمہوری دورمیں مظالم برداشت کئے۔ لیاری اور ملیر کے لوگوں کی نفسیات ہمیشہ جمہوری اور ترقی پسندانہ رہی ہے جس پر بہت کچھ پہلے بھی لکھاجاچکا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی آمرانہ دور کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی ایسی جماعت کے پیچھے گئے جس کی پشت پناہی مقتدر قوتیں کرتی رہیں، ان کے پاس صرف دو ہی چوائس رہے ہیں۔
ایک قوم پرست جماعتیں، دوسرا پاکستان پیپلزپارٹی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے لیاری اورملیر میں بہت کام کیا خاص کر لیاری کے اندر اسپتال، پلے گراؤنڈ،روزگار سمیت دیگر بنیادی سہولیات یہاں کے باشندوں کو دیئے جس کی وجہ سے لیاری کے عوام کاجھکاؤ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف رہا جبکہ ملیر میں ایسی شخصیات ہمیشہ کامیاب رہے جو ملیر کے عوام کے درمیان رہتے ہوئے ان کی خدمت کرتے رہے، انہیں کسی جماعت کی خاص حمایت کی بھی ضرورت نہیں رہی، عبدالحکیم بلوچ اس کی مثال ہیں جب وہ ن لیگ کی ٹکٹ سے جیت کر کامیاب ہوئے تو ن لیگ نے انہیں رکن قومی اسمبلی ہوتے ہوئے کوئی عہدہ نہیں دیا۔
جس کے بعد عبدالحکیم بلوچ اپنی جیتی ہوئی نشست سمیت پارٹی سے مستعفی ہوگئے۔ عبدالحکیم بلوچ کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے ہی تھا مگر بے اختیار رہ کر وہ محض ایک رکن اسمبلی بننے کو ترجیح دینا بہتر نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اس حیثیت کی بنیاد پر اپنے حلقوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے مگر ن لیگ کی طرف سے انہیں کچھ بھی نہیں دیا گیا جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے بطور ایم پی اے انہیں بہت سارے اختیارات اور فنڈز دیئے اور انہوں نے ایمانداری کے ساتھ ملیر میں لگائے۔ بہرحال ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں، اب بھی کراچی کی ترقی کی رفتار کاجائزہ لیاجائے تو پاکستان پیپلزپارٹی میگامنصوبوں پر کام کررہی ہے شہریوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کررہی ہے،موجودہ نتائج شاید انہی کاموں کا ثمر ہے جو بلدیاتی انتخابات میں سب کی توقعات کے برعکس سامنے آرہے ہیں۔