|

وقتِ اشاعت :   January 17 – 2023

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی جو بہت سارے مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہے، جہاںآبادی کے تناسب سے عوام کوسہولیات میسر نہیں ہیں۔ کراچی میں مختلف ادوار میں مقامی حکومتیں بنیں جس میں ایک طویل عرصہ ایم کیوایم پاکستان اور جماعت اسلامی کا رہا ہے مگر اس کے باوجود شہر کے مسائل جوں کے توں ہیں اور سب سے زیادہ کراچی کے مسائل پر احتجاج اور شکوہ بھی یہی دو جماعتیں کرتی ہیں حالانکہ ان کے پاس تمام تروسائل اور اختیارات بھی موجود تھے مگر اس کے باوجود بھی ان کے اپنے علاقوں میں سب سے زیادہ گھمبیر مسائل قدرتی آفات کے دوران پیدا ہوتے ہیںجب کراچی میں بارش ہوتی ہے تو نالوں کے اوپر تعمیر ہونے والے مکانات زمین بوس ہوجاتے ہیں، قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں ،کس نے این اوسی دیا اور کس نے رہائش کی اجازت دی اس کا جواب کبھی نہیں دیاجاتا ۔ سیوریج نالے آج بھی اسی طرح بوسیدہ ہیں، شاہراہوں کی صورتحال ابترہے، جتنے بلدیاتی مسائل کا ذکر کیاجائے کم ہے مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی نے کراچی میں سیوریج نظام کو بہتر بنایا، ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کیا، پانی کے مسائل حل کیے، شاہراہیں ، پل، انڈرپاسز تعمیر کیں اور ساتھ ہی شہریوں کو سستی سفری سہولیات فراہم کیں جس میں اورنج لائن، گرین لائن، الیکٹرک بس واضح مثالیں ہیں۔

یہ زمینی حقائق ہیں جنہیں تسلیم کرنا ضروری ہے البتہ جہاں ناقص کارکردگی ہے وہاں پیپلزپارٹی پر بھی تنقید ہوتی ہے اندرون سندھ میں مسائل بہت زیادہ ہیں سندھ حکومت پیپلزپارٹی کے پاس ہے ان مسائل کو حل کرنا بھی ضروری ہے ۔اسی طرح کراچی میں بھی بعض مسائل اپنی جگہ موجود ہیں البتہ چند عرصوں میں پیپلزپارٹی نے ترقیاتی کاموں میں تیزی لائی اور ایک بار پھر 70ء کی دہائی کے بعد بلدیاتی انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت بن کر سامنے آئی ہے ۔دوسری جانب بلدیاتی انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی کاالزام لگایاجارہا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ2018ء کے عام انتخابات کے دوران پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری اور ملیر سے پاکستان پیپلزپارٹی کی شکست کو عوامی ردعمل قرار دیاگیا مگر اب لیاری میں تو پیپلزپارٹی نے مکمل کلین سوئپ کیا اور اسی طرح ملیر سمیت شہر کے دیگر اضلاع میں بھی برتری حاصل کی جو پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک کا حصہ نہیں تھا تو کیااسے عوامی ردعمل نہیں کہاجاسکتا؟ بہرحال انتخابات میں جیت اور ہارچلتے رہتے ہیں اگر مبینہ دھاندلی ہوئی ہے تو اس کے لیے عدالت موجود ہے قانونی راستہ اپناناچاہئے جس کے بعد واضح ہوجائے گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کا مئیر کون ہو گا؟ کوئی بھی پارٹی گولڈن نمبر حاصل نہ کرسکی۔ دو جماعتیں مل کرلوکل گورنمنٹ بنا سکیں گی۔کراچی میں تیر کی پرواز بلند رہی لیکن سادہ اکثریت کے ہدف تک نہ پہنچ سکی۔

میئر کی کرسی پانے کے لئے تین بڑی جماعتوں میں سے دو کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے ہوں گے۔پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے جماعت اسلامی سے باضابطہ رابطے کا اعلان کیا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ جماعت اسلامی پہلی پارٹی ہوگی جس سے حکومت سازی پر بات کریں گے۔ علی زیدی کا کہنا ہے کہ حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل بنائیں گے۔واضح رہے کراچی کے میئر کے لئے کوئی بھی جماعت ایک سو چوبیس کا گولڈن نمبر حاصل نہیں کر سکی ہے۔ پیپلزپارٹی ترانوے سیٹوں کے ساتھ سب سے آگے رہی۔جماعت اسلامی نے چھیاسی جبکہ تحریک انصاف نے چالیس نشستیں جیتیں۔ ن لیگ کے سات، جے یو آئی کے تین اور ٹی ایل پی کے دو امیدوار کامیاب ہوئے۔ تین نشستوں پر آزاد امیدواروں نے میدان مارا۔ گیارہ نشستوں پر امیدواروں کی موت کے باعث الیکشن نہیں ہوئے۔اس تناظر میں واضح ہے کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اتحاد کی طرف جائینگے کیونکہ کے پی میں بھی دونوں جماعتیں حکومت میں ساتھ رہ چکی ہیں یہ الگ بات کہ ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے ہیں مگر مخالف کو پچھاڑنے کے لیے سیاست میں سب کچھ جائز تصورہوتا ہے ۔اب پیپلزپارٹی کیا حکمت عملی اپنائے گی کہ وہ اپنا میئر کراچی کے لیے لائے یہ چند دنوں میں واضح ہوجائے گا۔