کوئٹہ: سیاسی جماعتوں کے رہنماء ،وکلاء ،سول سوسائٹی کے نمائندوں ،صحافیوں اور سماجی وانسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزررہا ہے ملک کی سیاست کا محور عوامی مسائل کا حل نہیں بلکہ انتقام کی سیاست ہے، سیاست میں مداخلت نے سیاسی نظام کو نقصان پہنچایا ہے ،معاشی اور معاشرتی حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں ،عوامی مسائل پر پارلیمنٹ کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے ،سیاسی نظام کو پنپنے نہ دیا گیا تو لوگ پہاڑوں پر جانے پر مجبور ہونگے ، لوگوں کے مسائل کو سننے اور انہیں حل کرنے کی سکت پیداکرنے کی ضرورت ہے ،اگر نیا عمرانی معاہدہ بھی کرنا پڑے تو یہ اقدام بھی اٹھایا جائے ،
یہ بات بلوچستان پیس فورم کے سربراہ نوابزادہ حاجی میرلشکری خان رئیسانی ، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل ،سینیٹر فرحت اللہ بابر، سابق سینیٹرمصطفی نواز کھوکھر، سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد ہوتی ،سابق وزیراعلیٰ و رکن صوبائی اسمبلی نواب اسلم رئیسانی سمیت سیاسی جماعتوں ، وکلاء برداری ،صحافی رہنمائوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ہفتہ کو نوری نصیر خان کلچرل کمپلکس کوئٹہ میں بلوچستان پیس فورم کے زیر اہتمام ــ’’نیشنل ڈائیلاگ آن ری ایمرجننگ پاکستان ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔
بلوچستان پیس فورم کے سربراہ نوابزادہ حاجی میرلشکری خان رئیسانی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلاکرایک قرارداد کے ذریعے صوبے کے وسائل بیچے گئے بلوچستان کی ماؤں بہنوں نے تین ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے سپریم کورٹ کے سامنے انصاف کی اپیل کی انہیں بھی انصاف نہیں ملا بلوچستان کے 80فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیںگوادر کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات ،چیک پوسٹوں کے خاتمے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک 20سے 25ہزار خواتین کی ریلی نہیں نکالی لیکن گوادر کی خواتین اپنے حقوق کیلئے اتنی بڑی تعداد میں نکلیں انہوں نے کہا کہ ملک پرکئی سو ارب ڈالر کا قرضہ ہوگیا ہے بتایا جائے کہ پہلا قرض کس نے لیا وہ کتنا قرض تھاکہاں خرچ ہوا اور اب جو قرض لیا جارہا ہے وہ پیسے کہاں خرچ ہورہے ہیںآج ملک کنگال ہوچکا ہے ہمارے نام پر لوگ قرض لیکر بعد میں چلے جاتے ہیں
پاکستان کا قرض کا بلیک ہول بن چکا ہے کیا جوقرض لیا گیا اسکا 6فیصد بھی بلوچستان پرخرچ کیا گیا ۔انہوںنے کہا کہ ہمیں فرضی دشمنوں سے ڈرایا گیا اور ہزاروں لوگوں کی لاشیں گریںہم ایک نئے تصور کے ساتھ مداخلت کرنے والوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ انتظامی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ پہلے فاٹابدنام تھا اب بلوچستان میں راتوں رات سیاسی جماعتیں بن جاتی ہیںایسی جماعتیں پارلیمنٹ میں جاکرعوام کی نمائندگی نہیں کرسکتیں۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی ،زیڈ کے بی کے احمد خان اور ملتانی محلے کے عبدالقادر کو سینٹ میں بھیجا گیاانکا کیا سیاسی نظریہ ہے آج سیاسی جماعتوں نے ان تمام لوگوں کواپنے سرکا تاج بنایا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ وہ نیوٹرل ہوگئے ہیں لیکن ماضی میں مداخلت اور حلف کی خلاف ورزی پر تحقیقات ہونی چاہئے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو غیرذمہ داری سے حل نہیں کیا جاسکتاجسٹس جاوید اقبال مسنگ پرسنز کمیشن کے سربراہ تھے لیکن وہ نیب میں سیاسی رہنماوں کی پگڑیاں اچھالنے میں اتنے مصروف ہوگئے کہ انہوں نے اس مسئلے پرتوجہ نہیں دی ۔انہوں نے کہا کہ اب اسلام آباد ہائیکورٹ اوراسکے بعدبلوچستان حکومت نے بھی کمیشن بنادیئے ہیںتاکہ افراتفری پھیلاکرمسائل سے توجہ ہٹائی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ میں ملک کے نظام اور مداخلت کرنے والوں کو ہرتین ماہ بعد آئینہ دیکھاتا رہتا ہوں ہماری باتوں پر غور کرنے کی بجائے ہماری مخالفت اور ختم کرنے کیلئے لوگ سرجوڑ کر بیٹھ جاتے ہیںکسی سیاسی جماعت کے پاس معاشی ٹیم نہیں ہے کرایے کے ماہرین معیشت لائے جائیں گے تو نظام کیسے ٹھیک ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پانچ سال تک اسٹے پر ایک شخص کو رکن پارلیمنٹ بنائے رکھا ہماری آواز اور ووٹ دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج بھی سیاست اور وفاق مائنس بلوچستان چل رہے ہیںاگر سیاسی کارکنوں کا راستہ روکیں گے تو وہ پہاڑوں پر جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم امن ،ترقی ،صحت،خوشحالی چاہتے ہیں مگر ہمارا اختیار صوبے کے لوگوں کے پاس ہونا چاہئے ۔سابق وزیراعظم و مسلم لیگ(ن ) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اگر سینٹ ،قومی اور صوبائی اسمبلیوںمیں عوام کے مسائل کی بات ہوتی تو اس سیمینار کی ضرورت نہ پڑتی جب سیاست دشمنی ،الزام تراشی ،ایک دوسرے کو بدنام کرنے ،جیلو ںمیں ڈالنے پرآجائے تو معاشی اور سیاسی بدحالی جیسے نتائج سامنے آتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی سیاسی فورم نہیں بلکہ غیرسیاسی فورم پر سیمینار کررہے ہیں تاکہ عوام کے مسائل کی بات اورانکا حل تلاش کرنے پرغور و فکر کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ سیاسی نظام میں اسوقت استعداد نہیں ہے کہ وہ مسائل کا سامنا کرسکے دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہمارا ملک بدحالی کا شکار ہے ہم سب نے حکومت اور اپوزیشن کی ہے مگر پاکستان کے مسائل حل نہیں کرسکے ہمیں ماضی سے سبق لیکر بہتر مستقبل بنانے کی ضرورت ہے اگر ہم ہرسال شرح خواندگی میں ایک فیصد اضافہ کرتے تو آج 75فیصد شرح خواندگی ہوتی تعلیم اور صحت کے معاملات بہتر کرنے کیلئے ہمیں ایک نظام بنانا ہوگا حکومت کو سروس ڈلیوی کی طرف آنا ہوگا۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کا فورم اسمبلیاں اورسینٹ ہے مگر جہاں لسٹ بنے کہ کس نے جیتنا ہے اورکسی نے ہارنا ہے وہاں عوام کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اس سے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں50ہزار جعلی ووٹ لینے والا شخص کل تک پارلیمنٹ کا رکن تھابلوچستان خوشحالی کی بجائے بدحال ہے ۔
انہوں نے کہا کہ راتوں رات جماعتیں بنااور کروڑوں روپے دیکر لوگ سینیٹر بنے گئے تو ایسے لوگ سینٹ میں عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتے ہمیں آئین اور عوام کی رائے کا احترام کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہیں کیا جاتاتو ملک ترقی نہیں کرپائے گا۔انہوں نے کہا کہ آج بھی مسنگ پرسنز کا مسئلہ موجودہ ہے یہ انصاف کے نظام اور آئین کی ناکامی ہے دنیا بھر میں دہشت گردی ہوتی ہے لیکن یہ انصاف کے نظام کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرکے کہ کون گہنگار ہے اورکو ن نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم انسانی حقوق نہیں دے سکتے تو پھر ہم کونسے حقوق دیں گے اسکول ،ہسپتال عوام کا معیار زندگی سمیت دیگر اشیاء دینے میں نظام ناکام ہیاب الزام تراشی اور دست و گریبان ہونے کا وقت نہیں یکجا ہوکر چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف سیاست دان ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ اورعدلیہ بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیںپاکستان کے آئین کوایک بار موقع دیکر دیکھنے کی ضرورت ہے معاشی حالات پر قابو پانے کیلئے لمبا عرصہ درکار ہے گوادرکے لوگ پینے کے پانی تک سے محروم ہیںاب ہمیں مسائل کو حل کرنا ہے نہ کہ بہانے بنانے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر آئین میں تبدیلی یا نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے تو وہ بھی کیا جائے ۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست قلات کے الحاق کے معاہدے پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا 1948ء سے آج تک بلوچستان میں سورش چل رہی ہے اور اب اس آزادی کی تحریک میں زیادہ تیزی آئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہماری بات سننے کو تیار نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بندوق کے ذور پر ہمیں زیر کرلیں گے ہمارے گاؤں کے گاؤں کو آگ لگائی گئی لیکن پھربھی مسائل حل نہیں ہوئے آج ہمارے قبائلی معاملات میں بھی غیر متعلقہ لوگوں کو شامل کردیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ گوادرمیں کوئی سڑک بن کرے گا تواسے گرفتار کیا جائے گا ایک ادارے کے سربراہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں آپریشن سماجی ناہمواری ختم کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بندوق کے ذریعے مسائل حل ہوتے توماضی عالمی سطح پر جتنے بڑے تنازعات تھے وہ ختم ہوجاتے ۔انہوں نے کہا کہ ریاست سوتیلی ماں جیسا سلوک ترک کرے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مالی حالات ٹھیک نہیں لیکن بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری ہے صوبے کے 9ہزار بچے اورسیاسی کارکن گمشدہ ہیں عدالتیں اسکا ازخود نوٹس کیوں نہیں لیتی ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایجنٹ کہا جاتا ہے ہم مظلوموں ،پاکستان کے کمزور طبقے ،وفاق کی بات کرنے والوں کے ایجنٹ ہیں وفاق اسوقت مضبوط ہوگا جب اکائیوں کو اختیارات ملیں گے۔مسلم لیگ (ن)کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ روزگار صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔کوئٹہ میں پاکستان کے تصور نو پر قومی ڈائیلاگ سے خطاب میں مفتاح اسماعیل نیسوال کیا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ وہ پاکستان کیسے بنائیں جو سب کیلیے اچھا ہو؟انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اچھا بنانا ہے تو یہ کام ہمیں ہی کرنا ہے، ملک اس وقت 50 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے، ہمیں ہر برس 20 ارب ڈالر دینے ہیں۔سابق وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ پچھلے سال عمران خان 18 ارب کا خسارہ چھوڑ کر گئے تھے، ملک میں 8 کروڑ افراد غربت میں رہ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو عزت دار قوم بننے کیلیے اپنے پاوں پر کھڑا ہونا پڑے گا، ہر پاکستانی کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم 2 ہزار ارب روپے سے زائد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، ہمیں اسکولوں کا نظام بہتر کرنا ہوگا، ہمیں یہ تصور کرنا ہے کہ پاکستان میں بچوں کو اچھی تعلیم حاصل ہو۔ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ملک میں 15سے 50 سال کی 42 فیصدخواتین میں آئرن کی کمی ہوتی ہے۔
روزگار صرف بلوچستان نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، ہمیں سب پاکستانیوں کو روزگار دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ امید ہے اس سال بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ میں 400 ارب روپے ملیں گے۔ان کا کہنا تھاکہ ایسی کیا وجہ ہے لوگ غریب ہیں، یہ دیکھنا ہے ہم کس روش پر جارہے ہیں، 60 فیصد پاکستانی ایسے ہیں جن کی آمدنی 35 ہزار روپے سے کم ہے۔سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہر پاکستانی کی آمدنی بڑھانا ہے، ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ لوگوں کا اچھا معاش ہو، ہمیں یہ تصور کرنا ہے کہ ہر شخص کی آمدنی 1 لاکھ روپے ہو۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک زرعی ملک ہے، غلطی کسان کی نہیں بلکہ پالیسی سازوں کی ہے، یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ملک میں صحت کے تمام مواقع اور سہولیات ہوں، ہم ملک میں ہم آہنگی اور محبت کو بڑھا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں نفرتوں کا خاتمہ کرکے ہرشخص کوا سکا حق دلوانا ہوگا ہمیں ایسا پاکستان بنانا ہے جس میں کوئی کسی کا حق نہ مارے ہم سب کو اپنی ذمہ داری کا ادراک کرنا ہوگا اب مسائل کی بات کرنے نہیں بلکہ انکا حل نکالنے کی ضرورت ہے ۔سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد ہوتی نے سمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب ملک میں ووٹ کی قدر نہ ہو تو لوگ سوچنے پر مجبورہونگے کہ وہ کیسے اس ملک میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی غلامی قبول نہیں کی شاہد خاقان عباسی پر نیب کے ذریعے مصیبتیں ڈھائی گئیں ہم سے پوچھا جارہا ہے کہ کیا ہم پارٹی بنارہے ہیں ہم کوئی سیاسی جماعت نہیں بنارہے جب جماعتوں میں سننے کی سقت ختم ہوجائے تو ہم سمینار کرکے ہی اپنی آواز اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سیاسی جماعتوں میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹیاں ہوتی تھیں اب جو جتنا خوشامدی ہے اسے اتنا بڑا عہدہ ملے گا اور جو جتنا سچ بولے گا اس پراتنی مصیبت آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جس میں لوگ خوشی سے رہ سکیں جب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دیں تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی لیکن علی وزیر بھی اسی پارلیمنٹ کے رکن ہیں وہ آج بھی پابند سلاسل ہیںملک میں دو نہیں ایک قانون ہونا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ اورسابقہ حکومت مہنگائی پرقابو نہیں پاسکیںدونوں حکومتوں میں فرق صرف تباہی سے تباہ کن سفر کاہے معیشت میں بہتری آسکتی ہے مگرمعاشرے میں برداشت ختم ہوچکی ہے ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ جو ملک کے حالات ہیں ان میں اگر آج انتخابات کروادیئے جائیں تو تین ماہ بعد پھرسے تنازع کھڑا ہوجائے گا ہمیں انتخابات سے پہلے یہ معاہدہ کرنا ہوگا کہ معیشت اور معاشرے کو کیسے آگے بڑھانا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لاکر ترقی کرلی ہے ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہوگا خاندانی سیاست کو ختم کرنا ہوگا ہمیں ایماندار ،خداترس اور سادہ لیڈر کی ضرورت ہے۔
سابق سینیٹرمصطفی نواز کھوکھر نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 75سال گزرنے کے باوجود ہم آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھاملک میں سچ بولنے کا فقدان ہے ہم نے فیصلہ کیا کہ غیرسیاسی طریقے سے گفتگو کرتے ہوئے عوام کے مسائل کو اجاگر کریں گے مصطفی نوازکھوکھرنے کہا کہ پاکستان کی سیاست پانامہ اور توشہ خانہ میں پھنس گئی ہے آٹھ سال سے عوام کے مسائل کی کوئی بات نہیں کررہاہے بلوچستان کے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ا نکا حل نہ نکالاتو ملک کو نقصان ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ملک معاشی اورسیاسی دیوالیہ ہونے پر کھڑا ہے نوجوان اب گفتگو نہیں کررہے 64فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے جن میں سے 70فیصد ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں جو صورتحال ہے جو لوگ ملک چھوڑ کر نہیں جاسکتے وہ پہاڑوں پر جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکن پرامن طور پر سیاسی جدوجہد سے بھی محروم ہونگے تو پیچھے کیا آپشن بچے گا انہوں نے کہاکہ نہ ملک میں جمہوریت ہے نہ انسانی حقوق ہیں ملک میں جمہوریت اسی دن ختم ہوگئی تھی جب ملک میں پہلا ڈکٹیٹر آیا تھا اور ملک بنانے والوں کو غدارکہا گیاانہوں نے کہا کہ پاکستان میں جب پہلے عام انتخابات ہوئے اسوقت تک بھارت میں تین انتخابات ہوچکے تھے اصل میں آئین ،آرٹیکل8سے 28تک ہے اگر یہ حقوق لوگوں کو نہ ملیں تو آئین پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لوگ اپنے پیاروں کا سوال کر رہے ہیں عدالتیں انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہیں مگر وہ خاموش ہیں معاشرہ بکھرتا جارہا ہے مسنگ پرسنز کا مسئلہ حل طلب ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم کرکے عوامی مسائل کے حل پر توجہ نہ دی گئی تو ملک کو نقصان ہوگاہم سری لنکا نہیں ہمارے ملک کی بہت سی فالٹ لائنز ہیں اگر کچھ ہواتو معاشرہ تباہ ہوجائے گا ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہے مگر سیاسی جماعتیں 12منٹ میں ایکسٹینشن کی قانون سازی پراکٹھی ہوگئیں مگربلوچستان کے مسائل پر اکٹھا نہیں ہوسکیں ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابرنے ویڈیولنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہاپاکستانیوں کی اکثریت ریاست سے لاتعلق ہورہی ہے اور یہ رشتہ ٹوٹ گیا ہے، اس رشتے کو کیسے اس کو بحال کیا جائے، جب شہری دیکھتا ہے کہ اس کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور جوپامال کرنے والے ہیں وہ تسلیم بھی کرتے ہیں اور وردعدہ کرتے ہیں آئندہ ایسا نہیں ہوگامگراس کے باوجدعملی طورپرایسانہیں ہوتا،دوسری جانب لوگ لاپتہ ہورہے ہوں اور پاکستان کی عدلیہ اورریاست انہیں واپس لانے ناکام ہو جائے تویہ رشتہ کیسے بحال ہوگا، جب بلوچستان سے مسخ شدہ لاشیں ملیں اور لواحقین ایف آئی آر درج نہ کریں اور کہیں کہ ہمیں ریاست پر یقین نہیں ہے تو یہ رشتہ ختم ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے برخلاف جب پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میںلوگوں کو چور دروازے سے لایا جائے تو یہ رشتہ کیسے نہیں ٹوٹے گا۔
یہ رشتہ اس وقت تک بحال نہیں ہوسکتا جب تک آئین کے ساتھ وفاداری نہ ہو، جب آئین کی پامالی کرنے والے کو امپیونٹی ملے تو اسی طرح ہوگا، تمام ادارے اپنے آئینی دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں،پاکستان کو کسی اور طریقے سے ری امیجن نہیں کر سکتے، اکثریت پاکستان سے بیگانہ ہورہے ہیں۔رقبے کے لحاط سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی میں نمائندگی جب پنجاب اور کے پی کے سے کم ہو، اورجب آئین ہی ایسا ہو کہ قومی اسمبلی میں ان کی سیٹیں بلوچستان سے زیادہ ہوں اور یہاں کے عوام نظر انداز ہوںتوایسا ہی ہوگا،آئین کی حرمت کو بحال کرکے انٹیلیجنس ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریںتویہ رشتہ بحال ہوسکتاہے۔انہوں نے کہا کہ اسٹے آرڈر کے ذریعے نظام چلتا ہو اور پاکستان کو آٹھ ارب کا جرمانہ پڑاہو تو عدالتی اصلاحات بھی لازمی ہیں، چارٹر آف ری امیجننگ پاکستان تشکیل دینا چاہیے۔گوادر حق دو تحریک کے رہنماء حسین واڈیلانے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دور کے ڈھول سہانے جیسے گوادر کا چرچا ہے کہ سی پیک کی ماتھے کا جھومر ہے، گوادر سی پیک کے ماتھے کاجھومرنہیں بلکہ اس پرایک کلنک ہے، کہتے ہیں کہ گوادر گیم چینجر ہے اورسی پیک منصوبے سے ترقی آئے گی ہمیں پاگل کتے نے نہیں کاٹا کہ جوترقی کی راہ میں رکاوٹ بنیںانہوں نے بتایاکہ 1987میں جیونی میں پانی کی فراہمی کیلئے مظاہرہ کرنے والے لوگ شہید ہوئے مگرآج تک وہاں پانی نہیںہے،انہوں نے کہا کہ لاہور اور سندھ سے پنجاب تک اربوں روپے کے موٹر وے بنے مگربلوچستان میں کہیں بھی ایک انچ روڈ نہیں بنے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمران بلوچوں اوربلوچ نوجوانوں کو دہشتگرد کہتے نہیں تھکتے مگرہمیں بتایاجائے کہ گوادرمیں پرامن احتجاج کرنے والے دہشتگردتھے ؟انہوں نے کہا کہ گوادر میں پرامن احتجاج کر رہے تھے ہمارے مطالبات میں ٹرالنگ ، منشیات فروشی اورغیرضروری چیک پوسٹوں کاخاتمہ شامل تھے، ہم نے کوئی غلط بات نہیں کی،پاکستان میرا ملک توبلوچستان میراوطن ہے، پاکستان کی عمر 76سال میرے باپ کی عمر پاکستان سے زیادہ ہے، بلوچستان کے عمرکی گواہی مہر گڑھ دے گا، جب میرا وطن جلے گا اور میرے بچوں کو اغوا ہوںتو آنے والے وقت میں کوئی زندہ آباد کہنے والانہیں بچے گا،انہوں نے کہا کہ بندوق مسئلے کا حل نہیں ہم نے نوجوانوںکو تحریک میں یکجاکرکے پارلیمان اوربات چیت کے ذریعے آگے آںے کی بات کی مگرانہوںنے یہ بھی برداشت نہیں کیا،انہوں نے کہا کہ750 کلو میٹر سمندر ٹھیک ہے، سمندر بلوچستان کا نہیں پاکستان کا ہے تب بھی آپ کو ٹرالنگ کو توروکنا ہوگا، سندھ والے ہمارے بھائی ہیں، سندھ کے مچھیروں پر نہیں ہمیں اس جال پر اعتراض ہے، وائر نیٹ سمندری حیات کو تباہ کررہا ہے اس کوروکاجائے توپاکستان کو اربوں روپے کامنافع ملے گا۔انہوں نے کہا کہ جگہ جگہ ہماری تذلیل کیلئے چیک پوسٹیں بنائے گئے ہیں، اسکول اور گھروں پر قبضہ کیا ہوا ہے، بلوچستان میںایک ملین سے زیادہ نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہیں، افغانستان سے گوادر تک ان کی ناک کے نیچے منشیات سپلائی ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان انٹرنیشنل سطح پر بدنام ہو رہا ہے، ہمارے روزگار پر قدغن لگائے گئے ہیں، واہگہ بارڈر پر کام ہو رہا ہے، یہاں ہم پر را کا الزام لگاتے ہو وہاں توکام کررہے ہیں، چمن سے گوادر تک کاروبار پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
جو ان کو بھتہ دے اس کو کاروبارکرنے کی اجازت دی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ملتان اور سیالکوٹ سے آنے والے کو کیا پتہ کہ سمندر کیا ہے وہ ہمارے مچھلی کے شکار پر پابندی لگارہے ہیں،انہوں نے کہا کہ گوادر میں بکریاں چرانے والاچرواہا بھی ٹوکن پر ہیں اور چیک پوسٹ پر پہلے اطلاع دے کر بکریوں کی تعداد بھی بتاناہوتا ہے، ہم پرامن طریقے سے اپنے مسائل اجاگرکریںگے ہم بندوق نہیں اٹھائیں گے اورنہ کسی کو ماریں گے مگر اپنے حق کیلئے مریں گے،انہوں نے کہا کہ شہباز شریف یہاں آکرکہتے ہیں با اختیار لوگوں سے بات کریں گے یہ کون با اختیار لوگ ہیں، جنہوں نے ملک کے امیج کو مسخ کیا پہلے انہیں کٹہرے میں لانا ہوگا، اگرکسی نے کوئی جرم کیاہے عدالتیں کیوں ہیں، ہماری مائیں اور بہنیں اسلام آبادتک آتے ہیں، پنجاب والے بھائی ہیں ہمیں گلہ ہے وہ کیوں اس پہ نہیں بولتے، انہوں نے کہا کہ ایک جج یا جرنیل کا بیٹا لاپتہ ہوتا تو کیا ایساہی ہوتا،انہوں نے کہا کہ پاکستان میرا ملک ہے مگرآج حالات اس نہیج تک پہنچ چکے ہیں کہ نوجوان ہمیں طعنے دیتے ہیں کہ آپ دلال ہو ، ووٹ کسی اور کو پڑتے ہیں مگرکامیاب کوئی اور ہوتا ہے، یہاں کی سیاسی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی تاش پارٹیاں بن گئی ہیں، انہوں نے کہا کہ سیاستدان بزدل بن گئے ہیں، پاکستان کو مضبوط کرنا ہے تو ہر ادارہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے۔
زمیندار ایکشن کمیٹی کے حاجی عبد الرحمن بازئی نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ستر سال بعد آج پھر پاکستان میں محرومی کی وجہ سے ایک خطے کے لوگ خود کو مظلوم سمجھنے لگے ہیں، مشرقی پاکستان ہم سے اسی لئے الگ ہوا جب شیخ مجیب اسلام آباد سے گزرا تو کہا کہ ان دونوں سے مجھے پٹسن کی خوشبو آرہی ہے، ان محرومیوں کی وجہ سے ایک بھائی ہم سے الگ ہوا اکثریت کی وجہ سے ہم نے اس کو کمتر سمجھا، آج بلوچستان کے ساتھ وہی ہ ورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان آدھا پاکستان ہے اس کی وجود کو اپنے زیر زمین وسائل سے خطرہ ہے لوگ نظر بد سے اس کو دیکھتے ہیں،اٹھائیس ہزار ٹیوب ویل صرف 5سو میگا واٹ بجلی ملتی ہے، 28 ہزار میں جب آپ صرف 5میگا واٹ دے رہے ہیں جو کراچی اور لاہور کے لائن لاسز کے براںر بھی نہیں ا سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اس کو کتنا کمتر سمجھتے ہیں، بلوچستان کے مظلوم عوام نے اپنا خون دیاہے،انہوں نے کہا کہ خان آف قلات نے قائد اعظم کو سونے میں تولا اور اپنی چار ریاستیں پاکستان کو دئیے انہیں انکم ٹیکس کے نوٹس دئیے جارہے ہیں،مقتدر ادارے گہرے سوچ سے دیکھیں کہ ایساکیوں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1997میں بلوچستان میں قحط سالی آئی تو45لاکھ ثمرداردرخت سوکھ گئے، تین ہزار کاریزات خشک ہوگئے اور مجموعی طور پر چھ ارب سے زائد کا نقصان ہوا اس کی دادرسی کیلئے ایک پیسہ تک نہیں دیاگیا۔ مسلم لیگ (ن)بلوچستان کے صدر جمال شاہ کاکڑنے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی کم آبادی مسائل کی ایک وجہ ہے،اس لئے ہم سب سے زیادہ پریشان ہے، جب لوگ خاندانی منصوبہ بندی کررہے تھے تویہاں کی آبادی پہلے سے کم ہے ہونا چاہئے تھا کہ ہم بلوچستان کو رول ماڈل بناکر دوسروں کو بتاتے کہ کم آبادی کے کیا فوائد ہیں، جب محاصل کی تقسیم آبادی کے حساب سے ہوں تو5 فیصد فنڈ سے ہم 45فیصد رقبہ کی آبادی کو کیسے چلائیں۔صوبے کے وسائل بھی مسائل کی وجہ ہیں ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے 45 فیصد رقبے میں سونا، تانبا، کرومائیٹ اور دیگر معدنیات ہمارے پاس ہیں، تیسری وجہ امن کاہے، 1999میں جب مارشل لاء لگی تو بلوچستان کے سیاستدان اورتمام پارلیمانی رہنماء نواز شریف کو چھوڑ کر ق لیگ میں چلے گئے تھے، 2018 میں راتوں رات ایک پارٹی بنی جس کا نام باپ ہے،انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کی نظریں بلوچستان پر ہیں 50 کروڑ روپے میں سینیٹ کاایک بکتاہے اورہم راتوں رات بل جاتے ہیں، اربوں روپے کے فنڈزکے باوجود کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے، ایک محکمہ ایسا نہیں کہ بغیر پیسوں کے چپڑاسی کی نوکری تک نہیں ملتی، ووٹ ہم بیچیں، اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر پارٹیاں ہم بدلیں اور پھروفاق سے گلہ کریں کہ ہمیں فنڈز نہیں ملتے،ہمیں اب نہ جھکنے، نہ بکنے اور کرپشن نہ کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے مرض کی تشخیص کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ میگا پروجیکٹ اور فنڈ نہیں قومی اسمبلی میں بہتر نمائندگی سے مسائل حل ہوں گے، آئین میں ترمیم کرکے رقبے اور آبادی دیکھ کر بڑے ضلع کے دو قومی اسمبلی کی نشستیں دیں تب کمتری کم ہوں گی، سینیٹر کو فنانس اور وزیراعظم کے انتخاب میں ووٹ کا حق دیا جائے۔ انہوں نے بتایاکہ 75 سالوں میں لئے گئے قرضوں میں عوام کی شراکت داری کیا ہے ہمیں بتایا جائے غریب عوام کیوں ادائیگی کر رہا ہے، عوام مجبور ہے ریاست ماں جیسی ہے، تحفظ کیلئے سیکورٹی ہم خود کررہے ہیں، پانی کیلئے ٹینکر، بجلی کیلئے شمسی ہیلتھ کیلئے پرائیویٹ ہسپتال جاتے ہیں مگرپھربھی آپ کو ٹیکس دیتے ہیں یہ رقم کہاں جارہا ہے۔جماعت اسلامی کے ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ الیکٹیبلز کی وجہ سے صوبے میں بہت سے مسائل ہیں ہمارے ارکان اسمبلی نے صوبے کے مسائل پر سودا کیا ہے آج صوبے کے 17لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں مسائل کے حل کیلئے عوام کو اہمیت دینی ہوگی ۔نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹراسحاق بلوچ نے کہا کہ ملک میں فیڈرل ازم ہے جس میں ہر فیڈریٹنگ یونٹ کو اہمیت حاصل ہونی چاہئے آئین پر عملدرآمد ہوتاتو گزشتہ پانچ سال سے سی سی آئی کا اجلاس نہیں ہورہا این ایف سی ایوارڈ ابتک نہیں ہوا نیشنل اکنامک کونسل کا اجلاس سال میں دوبار ہونا چاہئے تھا جو نہیں ہوا ہمیں کم ترقی یافتہ علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ نظریہ ضرورت مصنوعی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے طلباء سیاست پر عائد پابندی کو ختم کیا جائے تو ملک میں اچھی سیاسی قیادت پیدا ہوسکتی ہے خارجہ پالیسی میں تبدیلی ،ماروائے آئین اقدامات کو ختم ہونا چاہئے انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے حقیقی جمہوریت سے ملک کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات عیسیٰ روشان نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت میں آنے کے بعد اپنے 26نکات کو بھول کر مشکلات میں پھنس گئی ہے ہمیں طے کرنا ہوگا کہ پارلیمانی جدوجہد کے ذریعے ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں کہ نہیں پی ڈی ایم میں شہید عثمان کاکڑ کے لئے قرارداد منظور نہیں کی جاسکی ۔انہوں نے کہا کہ صوبائی جماعتوں کو متحد ہوکر اپنے مقاصدکے حصول کی جدوجہد کرنی ہوگی وفاقی جماعتوں کے پاس ملک کی بہتری کا پروگرام نہیں ہے۔سابق سینیٹر وسماجی کارکن روشن خورشید بروچہ نے کہا کہ جب وزراء کے دروازے عوام کیلئے کھلے نہیں ہونگے تو انہیں انکا نکتہ نظر پتہ نہیں چل سکتا آج صوبے میں سینٹ کی سیٹیں اور نوکریاں بکنے کی بازگشت ہے اس طرح سے صوبہ ترقی نہیں کرسکتالوگوں کے پاس بجلی ،گیس سمیت بنیادی سہولیات نہیں ہیں عوام کہاں جائیں غریب غریب تر ہوجاتا رہا ہے ہمیں باتوں پر نہیں عمل کے ذریعے مسائل کو حل کرنا ہے انہوں نے کہا کہ ایم پی اے فنڈ بند ہونا چاہئے ۔سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ سیمیناروں میں تمام جماعتیں بات کرتی ہیں لیکن اسمبلی جاکر سب ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اپوزیشن اور حکومت کی باہمی رضامندی سے سب کچھ ہورہا ہے ایک قرار داد منظور کرکے صوبے کے اختیارات وفاق کو دیئے گئے مسنگ پرسنز کے مسئلے پر بات ہونی چاہئے مسائل طاقت نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے حل ہوتے ہیں۔ سابق سیکرٹری خزانہ محفوظ علی خان نے کہا کہ 50سال میں صرف چار این ایف سی ایوارڈ ہوئے2009ء کے بعد کوئی این ایف سی ایوارڈ نہیں ہوا صوبے میں 5گیس فیلڈ ہیں جن میں سے صرف 17فیصد گیس صوبے کو ملتی ہے 255وفاقی اداروں میں سے کوئی ایک بھی صوبے میں نہیں ہے سی پیک سے ابتک صرف دوارب ڈالر سے بھی کم کے منصوبے مکمل ہوئے ہیں جبکہ تکمیل تک یہ شرح محض 4.6ارب ڈالر ہوگی۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما صوبائی وزیر خزانہ و خوراک انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں قدرت کے خزانوں میں سے کوئی کمی نہیں وفاق نے ہمیشہ سے بدمعاشی سے ہمارے حقوق چھین لیے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں ایک پارٹی بناکر ہم پر مسلط کردی گئی جب حقوق نہیں ملتے تو لوگ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں بلوچستان میں سیاسی رہنماوں کو محب وطن ہونے کی سرٹیفکیٹ لیتے ہیںہم آج بھی غداروں کے لسٹ میں شامل ہے جب ہم پہلے پشتونستان یا حقوق دیدوں تو ہمیں غدار کہتے ہیں جب حقوق نہیں ملتے ظلم ہوتاہے تو تقسیم در تقسیم ہوتاجب حقوق نہیں ملتے تو لوگ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ نواب اسلم رئیسانی نے خود مجھے کہاں تھا کہ مجھے کہاں گیا دستخط کریں دوکروڑ ڈالر دیئے جائیں گے بلوچستان میں قدرت کے خزانوں میں سے کوئی کمی نہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاق نے ہمیشہ سے بدمعاشی سے ہمارے حقوق چھین لیے ہیں ہمیں ریکوڈک دیاجائے تو ہم پورا پاکستان کا بجٹ بناکردینگے یہاں کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں اے این پی کے 960 ورکروں کو شہید کیا گیاآج ایمل ولی اور ہمیں دھمکیاں مل رہی ہے سوئی پورے پاکستان کو چلارہاہے لیکن سوئی میں گیس نہیں انہوں نے کہاکہ شہباز شریف اعلان کرتے ہیں لیکن بلوچستان ایک روپیہ نہیں ملتاہم نے وزیراعظم شہباز شریف سے ایپل کی کہ این ایف سی ایوارڈ میں ہمارا حصہ دیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم اکھٹے ہو تو اسٹیبلشمنٹ ہمارا کچھ نہیں کرسکت ہہم خود اسٹیبلشمنٹ کے پاس جاتے ہیں ہماراچیف منسٹر جس طرح بھی ہے لیکن صوبے کے حقوق جدوجہد کررہے ہیں ہم نے کئی قراردادیں پاس کیے لیکن وفاق میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی سنتا ہی نہیں۔انہوں نے کہاکہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ کوئی نہیں مانتایے 50 وکلاء کو شہید کیا گیاہمارے ہمسایہ ممالک افغانستان ایران انڈیا سے تعلقات خراب ہیں کیسے چلے کاکبھی پشتون بلوچ کبھی قبائلی تضادات میں ہمیں تقسیم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ میرے ڈسٹرکٹ میں سب کو ایک دوسرے سے لڑاکر تقسیم دوریاں پیداکی گئی ہمارے سائل و وسائل پر اختیارات دیئے جائیں وفاق پاٹنر کی طرح آئے اپنا حصہ لے لین اختیارات ہمارے ہوں بلوچ پشتونوں کا ہزاروں سال سے تاریخ رہی ہے ہم نے ہندوستان تک کو فتح۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد نے کہا کہ وفاق کی جانب سے بلوچستان کو ہمیشہ نظر انداز رکھا گیا ہے مائنس بلوچستان کے پالیسی کو ترک کرنا چاہیے،ہمایوں عزیز کرد نے کہا کہ بلوچستان کے حقوق پر میڈیا بھی خاموش ہیں،پہلے صرف بلوچستان ایک کالونی تھامگر اب پورا ملک کالونی بن چکاہے،امید ہے کہ بلوچستان میں مائنس فارمولے کے ساتھ یہاں حکومت نہیں بنائے گئے،۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں غیرمقامی افراد کے ٹارگٹ کلنگ کی تحقیقات کے لئے ایک آزاد کمیشن بنایا جائے۔
قومی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے رسول سیکریٹریٹ آفیسرز ویلفئیرایسوسی ایشن کے صدر عبدالمالک کاکڑ نے کہا کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست بنے میں ناکام ہوچکاہے،ہمیں اپنے پالسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے، پاکستان کے منافع بخش اداروں پر اس وقت مقتدر قوتوں کا قبضہ ہے،عبدالمالک کاکڑنے کہا کہ بلوچستان کے ہزاروں نوجوان بے روزگاری سے تنگ ہوکر جرائم میں ملوث ہورہے ہیں وفاق کے جانب سے بلوچستان کو چھ فیصد کوٹہ دیاجارہاہے بلوچستان سے وفاق 60فیصد شئیر لیاجارہاہے،وفاق سے ملنے والے فنڈز بھی کریشن کی نظر ہورہے ہیںبلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے مذاکرت کرنے ہونگے ۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہزاروں خاندان نکل مکانی کر چکے ہیں بلوچستان کے مختلف اضلاع سے ہزورں افراد سالوں سے لاپتہ ہیں، لاپتہ افراد کا کمیشن بارہ سالوں سے مسائل نہیں کرپارہا ۔ لاپتہ افراد پر کوئی کیس ہے تو انہیں عدالتوں کے ذریعے سزا دی جائے، لاپتہ افراد کے مسئلے پربات کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی اقتدار ملنے کے بعد پر خاموش ہو جاتی ہیں ۔
ری امیجننگ پاکستان کے موضوع پر منعقدہ قومی ڈائیلاگ سے تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑنے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں کوئی سیاسی جماعت سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیںوفاق میں بلوچستان کا شیئر آبادی سے بھی کم ہے بلوچستان میں سیاسی اختلافات کو طاقت کے زور پر حل کیا جاتا ہے بلوچستان میں حقیقی جمہوریت کی قیام کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ سینیٹ کوزیادہ اختیارات دئیے جائیں، سینیٹ کے انتخابات کو برائے راست کروایاجائے این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کی بجائے وسائل کی بنیاد پر فنڈز تقسیم کیاجائے ،سیمینار سے وکلاء رہنماء راحب بلیدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عدالتی تاریخ انتہائی بھیانک رہی ہے عدالتوں نے تمام مارشلوں کے نظریہ ضرورت کو زندہ کیا ملک میں عدالتی نظام نہ کل آزاد تھا نہ آج آزاد ہے ملک میں سندھ کے وزیر اعظم کے لیے ایک فیصلہ جبکہ پنجاب کے وزیراعظم کے لیے الگ فیصلہ ،راحب بلیدی نے کہا کہ پی ڈی ایم تحریک بھی پنڈی کے قبرستان میں دفن ہوگئی ،ملک میں آئین کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی بھرتیاں بند کی جائیں ۔