ملک کے حقیقی مسائل سے آنکھیں چراکر کوئی بھی جماعت اپنے پنجے عوام میں نہیں گاڑسکتی۔یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ موجودہ حالات میں عوام، تاجر کوئی بھی مطمئن نہیں۔ اس وقت مختلف افواہیں بازگشت کررہی ہیں کہ ملک میں غذائی اجناس سمیت دیگر ضروریات کی چیزوں کا بحران سراٹھانے والا ہے۔
ایک سب سے بڑامسئلہ پیٹرولیم مصنوعات کا ہے جس کے حوالے سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ آنے والے دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات مکمل طور پر نایاب ہوجائیں گیں جبکہ اس وقت پیٹرول پمپس پر ملاوٹ شدہ پیٹرولیم مصنوعات فروخت ہورہی ہیں اب اس میں کتنی صداقت ہے اس کی تحقیقات ظاہر سی بات ہے حکومت نے کرنی ہے کہ آیا اس حوالے سے مارکیٹ میں جوباتیں چل رہی ہیں اس میں حقیقت ہے یا محض پروپیگنڈہ ہورہا ہے مگر یہ تمام کام اس وقت ہونگے جب سیاست سے باہر نکل کر ملک کے وسیع ترمفاد میں سوچ کر فیصلے کئے جائینگے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ پی ٹی آئی دور میں سابق وزیراعظم عمران خان کا سارا زور اپنے مخالفین کو تُن کر رکھنے کی تھی، انتقامی کارروائیاں کرکے جیلوں میں مخالفین کو ڈالاگیا،بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کے ذریعے سیاسی ماحول کو پراگندہ کیا گیا جس کی وجہ سے عمران خان شدید تنقید کی زد میں رہے کہ ان کی ترجیحات میں ملکی معیشت اور سیاسی استحکام نہیں بلکہ اپنی مرضی کی سلطنت قائم کرکے راج کرنا تھا۔
اب یہی کچھ موجودہ حکومت میں دیکھنے کو مل رہاہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرکے اسے سرپرائزکہہ کرخوشیاں منائی جارہی ہیں۔ مریم نواز اورنواز شریف کی واپسی کے حوالے سے باتیں کی جارہی ہیں کہ وہ آکر عام انتخابات میں ن لیگ کو لیڈ کرینگے،کیا ان کے پاس جادو کی چھڑی ہے کہ آکر ملکی مسائل کو فوری حل کرینگے جبکہ خود ن لیگ کے اندر اس وقت ایک جنگ چل رہی ہے۔گزشتہ روز مفتاح اسماعیل کو نوٹس جاری کیا گیا ہے، وجوہات جو بھی ہوں مگر سلیمان شہباز جو وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے صاحبزادے ہیں، انہوں نے مفتاح اسماعیل کوجوکر قراردیا تھا اور اسحاق ڈار کو اس پر ترجیح دی۔ البتہ اس تمام تر صورتحال میں مسائل ختم نہیں ہونگے اور نہ ہی توجہ ہٹ سکتی ہے۔ اب جو چیلنج سامنے آرہا ہے وہ اس رپورٹ میں عیاں ہے۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں بارشوں اور بدترین سیلاب کے نتیجے میں 60 لاکھ افراد کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ مون سون کے دوران طوفانی بارشوں اور بدترین سیلاب نے تباہی مچا دی تھی جس کے نتیجے میں نہ صرف سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ لاکھوں مویشی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ سیلاب کے باعث 94 لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث سب سے زیادہ نقصان سندھ اور بلوچستان میں ہوا تھا۔
سیلاب کے بعد ملک بھر میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ اکتوبر 2021 میں کھانے پینے کی اشیا ء میں مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد تھی جو مارچ 2022 میں 15.3 فیصد اور سیلاب کے بعد ستمبر میں 31.7 فیصد تک چلی گئی۔جنوبی ایشیاء میں ماحولیاتی و موسمیاتی عوامل، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور مقامی کرنسیوں کی قدر گرنے سے مہنگائی میں اضافے کا رجحان ہے۔
بنگلہ دیش میں دسمبر کے دوران مہنگائی کی شرح میں سالانہ بنیادوں پر 7.9 فیصد، نیپال میں 7.4 فیصد اور پاکستان میں 35.5 فیصد مہنگائی میں اضافہ ہوا جبکہ سری لنکا میں یہ شرح 64.4 فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے شروع ہونے والی بارشوں کے بعد سے پاکستان بھر میں 9 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ سندھ میں 2 لاکھ 8 ہزار سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے جبکہ ملک بھر میں 8 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر فصلیں سیلاب کی نذر ہوئیں۔
پاکستانی حکومت کے ابتدائی تخمینے کے مطابق سیلاب سے ہونے والے معاشی نقصانات 10 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔اس رپورٹ کے اندر موجود ملک کو درپیش مسائل کس طرح حل ہونگے،اس حوالے سے کوئی پالیسی نظر نہیں آتی البتہ یہ تسلیاں ضرور دی جارہی ہیں کہ جلد مہنگائی پر قابو پالیاجائے گا، سیلاب متاثرین کی بحالی پر جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ بیانات کی حد تک نظرآرہا ہے مگر نہ تو مہنگائی پر قابو پایا گیا ہے اور نہ ہی سیلاب متاثرین کی بحالی اس تیزی کے ساتھ ہورہی ہے جس تیزی کے ساتھ سیاسی پھرتی کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچادکھانے کا عمل جاری ہے۔