|

وقتِ اشاعت :   January 26 – 2023

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت ڈیڈلاک کا شکار کیوں ہے، ملک مسائل سے دوچار ہے ، سیاسی عدم استحکام اورمعاشی بحران کے باوجود بھی بات چیت نہیں کی جارہی،پی ٹی آئی تو جب سے حکومت میں آئی ہے اس دن سے وہ خاص کر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔عمران خان جب وزیراعظم تھے تب بھی وہ یہی بات دہراتے تھے کہ چور اور ڈاکوؤں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے کا مقصد این آراوٹو دینا ہے۔

جو قطعی میں نہیں دونگا اور کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آؤنگا۔ عمران خان کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک آئی تو انہوں نے پوری پی ڈی ایم کو ملک دشمن اور سازشی قرار دیدیا، مبینہ طور پر الزام لگایا کہ بیرون ملک سے رقم لے کر انہوں نے میری حکومت گرائی گوکہ انہوں نے اس بیانیہ پر متعدد بار یوٹرن لیا ہے۔ اب صدر مملکت عارف علوی نے بات چیت سے متعلق اہم انکشاف کیا ہے کہ موجودہ حکومت یعنی پی ڈی ایم بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔

عمران خان تو تیار ہیںجس طرح حوالہ دیا گیا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی قائدین پی ڈی ایم کے متعلق کیا باتیں کرتی آئی ہیں، وہ اب بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں ،حکومت تو اپنی جگہ اداروں پر بھی حملہ کیا گیا۔ بہرحال صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری یا مائنس ون فارمولے پر سخت عوامی رد عمل سامنے آئے گا۔صدر مملکت عارف علوی نے سینئر صحافیوں سے گورنر ہاؤس میں ملاقات کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھنا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو کئی مرتبہ اپوزیشن سے مذاکرات کی دعوت دی ہے لیکن حکومت نے مذاکرات کی دعوت کا کوئی جواب نہیں دیا۔

مذاکرات کے حوالے سے حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ عمران خان کو خدشہ ہے حکومت انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں، پی ٹی آئی رہنما ء فواد چودھری کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس پر شرمندگی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ مائنس عمران خان فارمولا کامیاب نہیں ہو سکتا اور عمران کی گرفتاری یا مائنس ون فارمولے پر سخت عوامی ردعمل سامنے آئے گا۔

وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ سے متعلق صدر مملکت نے کہا کہ وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کی فی الوقت ضرورت نہیں ،ان کے نمبرز پورے ہیں۔صدر مملکت نے بات چیت کے دوران یہ تو بتادیا کہ حکومت تیار نہیں تو کیا عمران خان اور پی ٹی آئی نے بیٹھنے کے لیے صدر مملکت سے بات کی ہے، انہوں نے تو ایک ہی بات اپنی رکھی ہے کہ این آر اوٹو نہیں دینا ہے جب حکومت چلی گئی تو الیکشن کی تاریخ مانگنے لگے یعنی بات چیت بھی مشروط چاہتے ہیں تو کس طرح سے مذاکرات کا راستہ کھل سکتا ہے ۔

اس وقت ملک میں جوحالات چل رہے ہیں سب یہی کہہ رہے ہیںکہ بات چیت ہونی چاہئے موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے سب کو اکٹھے بیٹھ کر کوئی راستہ نکالناچائیے،سیاسی کشیدگی اورموجودہ حالات کا متحمل ملک نہیں ہوسکتا ۔ اب دیکھتے ہیں کہ صدرمملکت عارف علوی کے اس بیان پر حکومت کیا مؤقف اپنائے گی واقعی حکومت کسی صورت بیٹھنے کے لیے تیار نہیں یا پھر حکومتی جماعتیں جو پہلے ہی سے یہ باتیں کررہی تھیں کہ مشروط بات چیت نہیں کرسکتے کسی کو لاڈلا نہیں بناناچاہتے ۔ البتہ سیاسی رویوں میں تبدیلی اور نرم پالیسی اب وقت کی ضرورت ہے مگر اس میںپہل اپوزیشن کی جانب سے ہونی چاہئے پھر شاید کوئی رستہ کھلے ، سیاسی انتقامی کارروائیوں یا گرفتاریوں کے حق میں کوئی نہیں مگر قانون اور آئین سے بالاتربھی کوئی نہیں ،سب اس کے ماتحت ہیں۔