ملک کے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انکشافات سامنے آنے لگی ہیں، ق لیگ بالکل ہی تیار نہیں تھی کہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل کیاجائے جبکہ پی ٹی آئی کے بعض ارکان بھی اس فیصلے سے خوش نہیں تھے مگر عمران خان کی ضد کی بھینٹ دونوں اسمبلیاں چڑھ گئیں، عمران خان اپنے آگے کسی بھی کو دیکھنا نہیں چاہتے تو ان کی رائے کو کیسے اہمیت دینگے۔ بہرحال گزشتہ روز سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے فواد چوہدری کی گرفتاری پر افسوس کی بجائے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے پہلے کیوں گرفتار نہیں کیا گیا اگر پہلے یہ کام ہوجاتا تو پنجاب اسمبلی تحلیل نہ ہوتی۔ ایک تو پرویز الہٰی نے عوامی اجتماع کے دوران اس بات کا برملا اظہار کیا ۔
جبکہ ایک مبینہ آڈیو میں بات چیت کے دوران فواد چوہدری کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں اسے مرکزی کردار گردانتے رہے کہ فواد چوہدری بار بار پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے پر زور دیتے رہے ۔بہرحال چوہدری پرویزالہٰی عوامی اجتماع کے دوران ہونے والی گفتگو پر معذرت تو کرلی مگر جو باتیں مبینہ آڈیو کے دوران ایک شخص سے کررہا ہے۔
اس پر چوہدری پرویزالہٰی کا غصہ اور خوشی دونوں واضح نظر آرہے ہیں ۔اب پرویز الہٰی اتنے پُرامید کیوں دکھائی دے رہے ہیں کہ سب کچھ اس کے لیے اچھا ہونے جارہا ہے کیا بیک ڈور کسی سے ان کی بات چیت چل رہی ہے کیونکہ لوگوں کا حافظہ اتنی کمزور نہیں کہ پی ڈی ایم کے ساتھ پنجاب حکومت بنانے اور پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ کی تخت پر بٹھانے کا مکمل فیصلہ ہوگیا تھا جس پر انہیں باقاعدہ پھول پیش کرنے کے ساتھ مبارکباد بھی دی گئی مگر چند پَل کے بعد ہی انہوں نے یوٹرن لیتے ہوئے پی ٹی آئی کی چھتری تلے جاکر وزیراعلیٰ پنجاب کی تخت پر بیٹھ گئے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس یوٹرن کا انکشاف بھی انہوں نے خود اس وقت کیا جب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کو ساتھ بٹھاکر سابق آرمی چیف جنرل (ر) جنرل باجوہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی حکومت گرانے کی سازش کامرکزی کردار قرار دیااور ملکی معیشت اور سیاسی عدم استحکام کا سارا ملبہ بھی ڈال دیاجس کے بعد پرویز الہٰی سیخ پا ہوگئے اور انہوں نے میڈیا میں آکر یہ بات کہی کہ عمران خان نے مجھے اپنے ساتھ بٹھاکر جنرل باجوہ پر تنقید کرتے ہوئے بڑی زیادتی کی ،وہ نہ صرف میرے بلکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے محسن ہیں اور اپنے محسن کے خلاف اس طرح کی بات کرنا احسان فراموشی ہے ۔
جبکہ مونس الہٰی نے بھی یہ بات بتائی کہ جنرل باجوہ نے ہی ہمیں پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ جانے کا مشورہ دیا تھا جس کے بعد ہم نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنائی۔بہرحال پنجاب میں سیاسی سرکس اب بھی جاری ہے اور سب کی توجہ اس وقت پنجاب پر لگی ہوئی ہے اس اہمیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور دوسری اہم وجہ یہ کہ پنجاب سے بھاری اکثریت لینے والی جماعت ہی مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔
اس لیے کوشش یہ کی جاتی ہے کہ نگراں سیٹ اپ کے دوران پنجاب میں من پسند شخصیات کو لاکر بٹھایاجائے تاکہ مستقبل میں ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔ یہ باتیں خود سیاسی جماعتیں ہی کرتی ہیں کیونکہ انہیں بہت سی وارداتوں کا علم ہوتا ہے اوروہ یہ سب کچھ خود کرتے آئے ہیں۔افسوس کا مقام ہے کہ دنیا بھر میں نگراں سیٹ اپ بنتے ہیں مگر اتنا واویلا نہیں ہوتا یہ ایک معمول کا سیاسی سیٹ اپ ہوتا ہے جس کی صرف ذمہ داری شفاف انتخابات کرانااور صوبے کے معاملات کو محدود حد تک چلانا ہے مگر یہاں وارداتیں تاریخ کا حصہ ہیں جن سے سبق نہیں سیکھاجاتا۔