|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2023

گوادر میں دھرنے پر تشدد کے بعد دفعہ 144نافذ کردیا گیا ہے۔ بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پکڑدھکڑ ،گرفتاریاں، تشدد، پابندیاں مسئلے کا حل ہیں اور یہ دیرپا ثابت ہوسکتاہے؟ یقینا نہیں کیونکہ بلوچستان میںجب بھی کسی مسئلے کے حل کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا تو اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

بلوچستان کے اتنے سارے مسائل ہیں کہ کسی ایک کو اٹھایا جائے تو وہ بھی پہاڑ نما دکھائی دے گا کیونکہ بروقت مسائل کے حل کو کبھی بھی ترجیح نہیں دی گئی اور تاخیری حربوں کے ذریعے مسائل کو الجھادیا گیا، انہیںحل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی مستقل پالیسی بنائی گئی کہ کس طرح سے بلوچستان میں موجود سیاسی، معاشی جو خاص کر بڑے معاملات ہیں ان کو حل کرکے حالات کو بہترکیاجائے۔

گوادرھرنے سے قبل بھی بلوچستان میں بہت سارے مسائل پر مظاہرے ہوئے، چھوٹے سے لے کر بڑے مسائل پر لوگ سڑکوں پر نکلے ۔ٹیچرز، وکلاء، ڈاکٹرز، طلباء وطالبات ، ٹریڈیونینز کی تنظیمیں یہ چھوٹی سی مثال ہے اس میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور نہ بلوچستان کے سیاسی مسائل پر جو اس وقت معاملات چل رہے ہیں اس کا تذکرہ بھی نہیں کیاگیا ۔

پہلے سیاسی مسائل کے حل کے حوالے سے بھی مظاہرے او دھرنے دیئے جاتے رہے ہیں مگر افسوس خاص کر وفاق کی ترجیحات کچھ اور ہی رہی ہیں تو معاملات کہاں اور کس نہج پر پہنچے یہ سب کے سامنے ہے۔ بہرحال اپنے مطالبات کے لیے جمہوری اور آئینی طریقے سے جدوجہد سب کا حق ہے یہ صرف سیاسی جماعتوںکو خاص ریلیف حاصل نہیں کہ وہ جب چاہیں سڑکوں پر نکل کر دھرنا دیں،شاہراہوں کو بلاک کردیں، املاک کو نقصان پہنچائیں قانون سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔

مگر یہی سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں ان کے نزدیک احتجاج جمہوری اور قانونی بن جاتا ہے جب حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کے لیے احتجاج کے معنی ہی بدل جاتے ہیں، جب حقیقی متاثرین باہرنکلتے ہیں تو ان کے لیے قانون اور آئین کی مختلف تشریح کرکے ان پر تشدد کیا جاتا ہے، گرفتاریاں ہوتی ہیں ۔ جمہوری ممالک کے اندر ہر کسی کو احتجاج کا حق حاصل ہے مگر تشدد ،انتشار کی اجازت یقینا کسی کو بھی نہیں ہے چاہے وہ سیاسی ومذہبی جماعتیں ہوںیا پھر کوئی اور طبقہ ، قانون سب پریکساں لاگوہوتا ہے۔

البتہ یہاں ذکر گوادر دھرنے کا ہورہا ہے جس پر گزشتہ روز وزیرداخلہ میرضیاء اللہ لانگو اور آئی جی پولیس عبدالخالق شیخ نے پریس کانفرنس کی، صوبائی وزیر داخلہ میرضیاء اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے سے مولانا ہدایت الرحمان نے گوادر اوراطراف کو دھرنے کے ذریعے یرغمال بنارکھاتھا۔کچھ عرصہ پہلے وزراء گئے مذاکرات کیے لیکن مولانا ہدایت نے ان کا مذاق اڑایا۔

میں خود گیا ،سیکرٹریز گئے تو انہوں نے خود اعتراف کیا کہ ہمارے مطالبات مان لیے گئے۔صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے کہا کہ صوبائی حکومت نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی قیادت میں حق دوتحریک کے تمام مطالبات تسلیم کئے ،گوادر میں حق دو تحریک کے احتجاج کے حوالے سے صوبائی حکومت نے باربار مذاکرات کئے،گزشتہ روز حق دو تحریک کے مشتعل افراد نے سرکاری املاک کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی،جب مشتعل افرادکی جانب سے شرپسندی کی جائے گی تو قانون بھی حرکت میں آئے گا،احتجاج کا ایک جمہوری طریقہ ہوتا ہے ،لاپتہ افراد کئی عرصے سے پریس کلب کے سامنے احتجاج کررہے ہیں، کسی نے ان کیخلاف کاروائی نہیں کی۔مولانا اسٹیج پر بزرگ لوگوں اور رہنماؤں کے خلاف نازیبا تقاریر کرتے ہیں۔

میرضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ گوادر پاکستان کا مستقبل ہے گوادر پاکستان کا حب بننے جارہاہے۔ہم نے 42 مطالبات میں سے بہت سے مان لیے تھے کچھ پر کام جاری تھا۔ گوادر میں دھرنا ایسی جگہ پر دیا جارہاہے جہاں چائینز کی آمدو رفت ہے۔صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگوکا کہنا تھا کہ چائنیز کی سیکیورٹی بہت اہم ہے گوادر دھرنے سے دنیا کے سرمایہ کار نہیں آئیں گے۔آخر کار گوادر دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا کہ چائنیز کی سیکیورٹی سمیت دیگر مسائل حل ہوں۔

ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ مسائل کا دیرپا حل طاقت کا استعمال نہیں بلکہ بات چیت ہے اگر کسی جگہ خامی اور کوتاہی ہوتی ہے تو حکومت فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو تشدد کی بجائے مذاکرات تک محدودرکھتی ہے کیونکہ حکومت پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لہٰذا گوادر دھرنے کے مطالبات جن کا خود وزیرداخلہ تذکرہ کررہے ہیں کہ وہ تسلیم کی گئی ہیں ۔

تو وہ پورے ہوتے ہوئے بھی دکھائی دیں کیونکہ کسی کو بھی شوق نہیں کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر سڑکوں پر ذلیل و خوار ہوتا رہے ۔ ظاہر سی بات ہے دھرنا غریب ماہی گیراور متاثرین دے رہے ہیں جو اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں امید ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ لیتے ہوئے جلد گوادر حق دو تحریک کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی جائے گی اور تمام مسائل کو افہام وتفہیم سے حل کیاجائے گا۔