|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2023

بلوچستان میں شاہراہوں کا دورویہ نہ ہونے کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے آرہے ہیں ،اب تک ہزاروں افراد کوئٹہ کراچی سمیت دیگر قومی شاہراہوں پر مختلف حادثات میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بلوچستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی تا کوئٹہ قومی شاہراہ کو دورویہ ہونا چاہئے کیونکہ اس روٹ پر آمد ورفت بہت زیادہ ہوتی ہے اور سب سے زیادہ حادثات بھی اسی شاہراہ پر رونما ہوچکی ہیں۔ گزشتہ دنوں بیلہ میں ایک مسافر کوچ کھائی میں گرگئی جس کے نتیجے میں 42افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ،ابتدائی رپورٹ کے مطابق مسافر کوچ کی حالت بہتر نہیں تھی جبکہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والاڈرائیور بھی اناڑی تھا یعنی حادثے کی دو وجوہات سامنے آئی ہیں جبکہ کوچ مالکان تنظیم کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیاگیا ہے کہ بارش کے باعث پھسلن کی وجہ سے حادثہ ہوا ہے۔

بہرحال اس کی تحقیقات حکومت کو ہی کرنا ہے بس میں آگ بھڑک اٹھی جس میں مسافر جھلس گئے ،اگر گاڑی میں آگ نہ لگتی تو شاید زیادہ جانیں نہ جاتیں ،گاڑی میں غیر قانونی پیٹرولیم مصنوعات موجود تھیں یا نہیں اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔ البتہ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ قومی شاہراہ کو دورویہ کرنا ہے اس حوالے سے بلوچستان کے عوام نے بھی احتجاج کیا ہے خضدار سے ایک بڑی ریلی کوئٹہ تک نکالی گئی اور یہی مطالبہ کیاگیا کہ جلد کراچی کوئٹہ قومی شاہراہ کو دورویہ کیاجائے تاکہ حادثات کی روک تھام ہوسکے، اس پر حکومت نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ لازمی اس پر کام کرے گی۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے یہ باتیں ماضی میں بھی کی جاچکی ہیں مگر زمین پر اب بھی کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، وہ کون سے اسباب ہیں جو رکاوٹ کا باعث بن رہی ہیں

جس سے شاہراہ کو دورویہ نہیں کیاجارہا ،یہ بات اب تک واضح نہیں ہوئی ہے۔ یاددہانی ضروری ہے کہ گڈانی موڑ پربڑا سانحہ رونما ہوا تھا جس میں 35افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جن کا ڈی این اے ٹیسٹ نہیں ہوسکا اورلاشوں کو لاوارث دفنادیا گیا تھا۔ پنجگور سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اسی شاہراہ میں لقمہ اجل بن گئے جو بڑا کیس بنا اور اس پر بہت زیادہ شور شرابہ ہوا، سب نے آواز بلند کی مگر کچھ عرصہ بعد یہ معاملہ بھی سرد خانے کی نظر ہوگیا ۔ اہل بلوچستان کب تک ان قومی شاہراہوں سے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہینگے کب ان کی فریاد سنی جائے گی کب اس شاہراہ کو دورویہ کیاجائے گا؟

کوئی تو جواب دہ ہے اور سب سے بڑی ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے ،اب توسرحد کی بندش کے باعث غیرقانونی پیٹرولیم مصنوعات مسافر کوچز اور وین پر نہیںلادھے جارہے جو پہلے چلتے پھرتے بم کی طرح شاہراہوں پر دھماکے سے اڑ جاتے تھے اب مسئلہ قومی شاہراہ کا ہے جسے دورویہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ماشاء اللہ اب تو بلوچستان میں کوئی ایک ایسی جماعت نہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ،تمام جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں چند وفاق اور دیگر صوبائی حکومت کا حصہ ہیں یعنی مکمل طور پر بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اس وقت حکومت میں شامل ہیں تو کسی اور کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا بلکہ یہ ذمہ داری اب انہی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو بلوچستان کا رونا روتے ہیں، وسائل اور ساحل سمیت دیگر حقوق کی بات کرتے ہیں صرف ایک احسان یہ کردیں کہ آنے والے بجٹ میں قومی شاہراہ کو دو رویہ کرنے کے حوالے سے نہ صرف رقم مختص کی جائے بلکہ کام کا بھی آغاز کیاجائے تاکہ دوبارہ اس طرح کے سانحات رونما نہ ہوں۔ اگر غفلت برتی گئی تو اس کی ذمہ داربھی سیاسی جماعتیں ہونگی محض حکومت کے نام پر گمراہ کن بیانات دے کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔