|

وقتِ اشاعت :   February 3 – 2023

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کو گزشتہ دنوں راولپنڈی موٹروے سے پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ شیخ رشید نے سابق صدر آصف علی زرداری پرایک دہشت گردتنظیم کو رقم دینے اورعمران خان کو قتل کرنے کے متعلق بیان دیا تھا۔پولیس کے پاس موجود پرچے پر شیخ رشید اپنے بیان سے مُکر گئے اور اپنے جاری کردہ ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ میرابیان نہیں، میں اپنے کہی بات پر قائم ہوں کہ عمران خان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران بھی انہوں نے یہ بات دہرائی تھی کہ میرے پاس معلومات موجود ہیں ابھی شیئر نہیں کرونگا مگر آرمی چیف کو پیغام بھجوایا ہے کہ یہ منصوبہ بناہے اسے سنجیدگی سے لیاجائے۔ شیخ رشید ایک ہی کیس میں اب تک مختلف بیانات دے چکے ہیں۔ شیخ رشید کی سیاست سے ہر شخص واقف ہے کہ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست کرتے آرہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے سب سے قریب ترین سمجھے جاتے رہے ہیں۔ پچھلے ادوار جتنے گزرے وہ ہمیشہ گڈ بک میں رہے ہیں اور اہم وزارتوں پر بھی رہ چکے ہیں اور حکومتوں کا خاص حصہ رہے ہیں اور یہ بات سب پر عیاں ہیں کہ ان پر ایک خاص شفقت رہی ہے۔البتہ موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھاجائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب شیخ رشید کی سیاست بند گلی میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے،

ویسے ماضی میں بھی اس کے کوئی خاص کارنامے نہیں تھے مگرایک حلقے کی جانب سے انہیں نوازا ہی گیا ہے۔ شیخ رشید جتنے بڑے انقلابی بن کر سامنے آرہے ہیں در حقیقت ان کی سیاست اس سے کوسوں دور ہے جتنی عمران خان اور اس کے قریبی لیڈران کی ہے۔ پی ٹی آئی لیڈر شپ نے اپنے لیے ایک زعم بنادیا ہے کہ وہ اس ملک کی سب سے بڑی انقلابی جماعت ہے جو ملک کا نقشہ مکمل بدل سکتی ہے، لیکن اگرعمر ان خان کے دور حکومت کاجائزہ لیاجائے تو وہ کسی بھی حوالے سے کامیاب نہیں رہے بلکہ انتقامی سیاست کو ہی ترجیح دیتے رہے مخالفین کے خلاف کیسز بنانے میں مصروف رہے،جو ہتھے چڑھا اسے تُن کے رکھ دیا،سیاستدانوں اور صحافیوں پر کیسز بنائے، انہیں تشددکا نشانہ بنایا گیا، اپنے ان اعمال سے اب یوٹرن لے رہے ہیں۔ عمران خان اپنی کہی ہوئی باتوں سے یوٹرن لیتے آئے ہیں آئے روز پریس کانفرنسز کے دوران اپنی وزارت عظمیٰ کے جانے کے متعلق من گھڑت کہانی بیان کرتے ہیں، کبھی امریکہ، کبھی جنرل باجوہ، کبھی پی ڈی ایم تو کبھی محسن نقوی کو مرکزی کردار گردانتے ہیں۔

آگے چل کروہ مزیدہ نئے نام لیکر آئینگے۔ عمران خان اب یہ بتارہے ہیں کہ ان کے دور میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اور ایک پیج پر رہ کر وہ کام کررہے تھے مگر جب کرسی کی رخصتی ہوگئی تو یہ بتانا شروع کردیا کہ میری بات ہی نہیں سنی جاتی تھی، جنرل باجوہ سے اختلاف اس بات پر ہوئی کہ انہوں نے پی ڈی ایم قیادت کو این آر و دینے کی بات کی۔ نیب کے متعلق بھی وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں تھا۔بہرحال یہ مختصر منظرنامہ ہے۔

جس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ شیخ رشید کس حد تک سچ بول رہے ہیں حالانکہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ شیخ رشید نے آصف علی زرداری پر براہ راست عمران خان کے قتل منصوبے کا الزام لگایا ہے مگر پولیس پرچے میں انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ میں نے عمران خان کی بات کو کوڈ کرکے بولا ہے۔ یعنی ان کے بیان میں بہت بڑا تضاد اور جول موجود ہے۔ البتہ اسلام آباد کی سیشن عدالت نے شیخ رشید کادوروزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرکے پولیس کی تحویل میں دیدیا ہے۔ شیخ رشید اب وہی سب کچھ بھگت رہے ہیں جس کا بیج انہوں نے خود بویا ہے،ہر بار مہربانیاں اور خاص کرم نہیں ہوتے۔ شیخ رشید کی سیاست کا باب ختم ہوگا یا نہیں فی الحال کچھ نہیں کہاجاسکتا۔