پاکستان میں اس وقت معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے، گزشتہ کئی دہائیوں سے لئے گئے قرضوں کابوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات سر پر منڈھلانے لگے ہیںاور اس سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے تمام شرائط کو تسلیم کرنا پڑرہا ہے کیونکہ اس کے بغیر ملک کو چلانا مشکل تر ہوچکاہے ۔اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلا جائے اور حالات کو معمول پر لایاجائے، سرمایہ کاروں کے اندر موجود بے چینی کو ختم کیاجائے، ڈالر پر قابو پایاجائے ۔
روپے کومستحکم کیاجائے، مگر اس کا تعلق اب آئی ایم ایف کی قسط سے جڑا ہواہے کیونکہ اس کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ۔ دنیا کے دیگر ممالک کے ذرائع ابلاغ پاکستان کی معیشت کے متعلق رپورٹ دے رہے ہیں کہ حالات بہتر نہیں ہیں۔ گزشتہ روز معروف برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے پاکستانی معیشت کو درپیش مشکلات پر خطرے کی گھنٹی بجادی۔برطانوی جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان تباہی کے دہانے پر ہے، جوہری طاقت اور اس کے قرض دہندگان ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے سخت اقدامات اٹھا رہے ہیں، ۔
ر صرف 3.7 بلین ڈالر رہ گئے، چین، آئی ایم ایف اور پیرس کلب کو پاکستان کو قرضوں کی تنظیم نو کے مذاکرات میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کو پچھلے دنوں پاور بریک ڈاؤن، موسمیاتی تباہ کاری اور دہشتگردی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔دوسری جانب گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے تسلیم کیا ہے کہ ملک کو عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات میں بہت سی مالیاتی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا پاکستان نے سات ارب ڈالر کے زیر التوا قرضے کی بحالی کے لیے شرائط پوری کیں ہیں یا نہیں، آئی ایم ایف ہر طرح سے جانچ پڑتال کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف قرض دینے سے پہلے پاکستان کی معاشی کارکردگی کا ہر پہلوسے تنقیدی جائزہ لینے میں مصروف ہے۔شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم بہت سی مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف مشن ہر معاملے کی جانچ پڑتال کر رہا ہے چاہے اس کا تعلق فنانس، پیٹرولیم، تجارت یا توانائی کے شعبے سے ہو۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے باقی رہنا ہے لیکن اس کا طریقہ دوسرے ملکوں سے یا مالیاتی اداروں سے بھیک مانگنا نہیں ہے۔بہرحال حکومت نے آئی ایم ایف کے شرائط کو تسلیم کرنا ہی ہے جس کا عندیہ پہلے ہی حکومتی نمائندگان دے چکے ہیں اوراس کے بعد کے نتائج بھی مہنگائی کے حوالے سے بہت زیادہ سامنے آئینگے ۔
المیہ یہ ہے کہ اول روز سے معاشی اصلاحات نہ کرنے کی وجہ سے ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ڈیفالٹ ہونے کی باتیں ہونے لگی ہیں اب دیکھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد حکومت کیا اقدامات اٹھائے گی جس سے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ عوام پر زیادہ بوجھ بھی نہ ڈالاجائے اور پیداواری صلاحیت کو بھی بڑھایاجائے اور ساتھ ہی اصلاحات میں موجود اداروں، آفیسرز کے اثاثوں کی تفصیلات ، کاروبار اور ٹیکس کے متعلق معلومات کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوگی یہ آئندہ چند روز میں واضح ہوجائے گا مگر یہ کہنا کہ قرض پر مزید ملک کو چلایانہیں جاسکتا تو یہ بھی آئی ایم ایف کے جاری کردہ قسط کے بعد اٹھائے جانے والے اقدامات سے ہی واضح ہوگا کہ حکومت معاشی اصلاحات کرکے مستقبل کے حوالے سے کیا لائحہ عمل اپنائے گی تاکہ دوبارہ قرض کی طرف نہ جانا پڑے۔